اسلام آباد: سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے مفرور اور اشتہاری قرار دیئے گئے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے خلاف دائر درخواست منظور کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اسحٰق ڈار کی سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران درخواست گزار اور وکیل نوازش پیرزادہ پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار مفرور ہیں، جس کی بنیاد پر وہ انتخاب نہیں لڑسکتے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں وہ قانون بتائیں کہ کوئی مفرور شخص انتخاب نہیں لڑسکتا؟ کیا ہائی کورٹ نے میرٹ کو نہیں دیکھا؟

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: اسحٰق ڈار کی سینیٹ انتخاب میں کامیابی چیلنج

ان کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا کسی عدالت نے کوئی فیصلہ دیا ہے کہ اشتہاری انتخاب نہیں لڑسکتا؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اس بارے میں فیصلہ موجود ہے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر فیصلہ ہے تو اسے پڑھیں۔

عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے بتایا کہ اسحٰق ڈار بیرون ملک تمام سہولیات سے لطف اندوز ہورہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اسحٰق ڈار بیمار ہیں یا بیرون ملک سہولیات سے لطف اندوز ہورہے ہیں، ہم نے صرف یہ سمجھنا ہے کہ کیا مفرور شخص انتخاب لڑسکتا ہے یا نہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا یہ اعتراض ہے کہ انتخابی خرچ کے لیے مفرور شخص بینک اکاؤنٹس کیسے کھول سکتا ہے؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ نیشنل بینک گلبرگ برانچ میں اسحٰق ڈار کا بینک اکاؤنٹ کھولا گیا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں کیا اس کا بینک اکاؤنٹ کھولا جاسکتا ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پاکستان میں غیر موجودگی کی صورت میں بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا جاسکتا۔

اس موقع پر وکیل نے بتایا کہ اسحٰق ڈار کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی عدالت نمبر ایک نے 11 دسمبر 2017 کو اشتہاری قرار دیا جبکہ ان کی جانب سے اس حکم کو چیلنج نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اسحٰق ڈار نے کاغذات نامزدگی کے لیے قانون کی شق 110 کے تحت بینک اکاؤنٹ کھولا جبکہ ریٹرننگ افسر نے ان کے کاغذات اشتہاری ہونے کی بنیاد پر مسترد کیے۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ نے اسحٰق ڈار کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی جبکہ ہائیکورٹ نے فیصلے میں اشتہاری کے انتخاب لڑنے یا نہ لڑنے سے متعلق بات نہیں۔

سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون سی کے تحت اچھے کردار کے حامل نہ ہونے والے شخص پر انتخاب میں پابندی کی مثال دی گئی اور بتایا گیا کہ اسحٰق ڈار کے 2 بینک اکاؤنٹس کھولے جو فراڈ تھے کیونکہ اس کے لیے بائیومیٹرک نظام کے تحت تصدیق ضروری ہے۔

بعد ازاں عدالت نے درخواست گزار کا موقف مکمل ہونے پر اسحٰق ڈار اور ریٹرننگ افسر لاہور سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ اسحٰق ڈار خود یا بذریعہ وکیل پیش ہوں اور اس مقدمے میں ایڈووکیٹ بابر ستار کو عدالتی معاون مقرر کردیا گیا، جس کے بعد سماعت 21 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ الیکشن: ’اسحٰق ڈار کے کاغذات نامزدگی غیر قانونی ہیں‘

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار نوازش پیرزادہ کی جانب سے 9 مارچ کو مفرور اسحٰق ڈار کی نااہلی سے متعلق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت اسحٰق ڈار کو سینیٹ انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرے۔

خیال رہے کہ 17 فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کی جانب سے سابق وزیر خزانہ کے خلاف ریٹرننگ افسر کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے اسحٰق ڈار کو سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔

بعد ازاں 3 مارچ کو سینیٹ انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اسحٰق ڈار کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں