اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شہید رہنما بینظیر بھٹو کے خلاف توہین عدالت کیس کی درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹادی۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بینظیر بھٹو فوت ہوچکی ہیں جبکہ درخواست گزار سید اقبال حیدر کا بھی انتقال ہوچکا ہے، جس پر عدالت نے درخواست کے غیر موثر ہونے پر اسے نمٹا دیا۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف توہین عدالت کی درخواست 1997 میں سید اقبال حیدر کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ بینظیر بھٹو اپنی خودساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد سال 2007 میں واپس آئی تھیں، جس کے بعد پہلے ان پر کراچی میں کارساز کے مقام پر حملہ کیا گیا جبکہ دسمبر 2007 میں راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے بعد ان پر خودکش حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں پی پی پی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت بھی ہوئی، جس میں چیف جسٹس نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کہاں ہیں ان کی درخواست زائد المعیاد ہے، جس پر عدالت نے عدم پیروی پر درخواست خارج کردی۔

توہین عدالت کیس: رحمٰن ملک کو نوٹس جاری

دوسری جانب سپریم کورٹ میں سابق وزیر داخلہ اور پی پی پی کے سینیٹر عبدالرحمٰن ملک کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری نے عبوری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

سماعت کے دوران درخواست گزار محمود اختر نے بتایا کہ عبدالرحمٰن ملک کو 2012 سے 2015 تک لی گئی مراعات واپس دینے کا حکم دیا گیا تھا، تاہم عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوا اور وہ ڈیفالٹر ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سابق وزیر داخلہ کے خلاف سنگین نوعیت کی عدالتی آبزرویشن موجود ہے جبکہ انہوں نے بطور سینیٹر مانیٹر فنڈز واپس نہیں کیے اور ان فنڈز کی واپسی کے لیے الیکشن کمیشن اور سینیٹ نے کوئی کارروائی بھی نہیں کی، بعد ازاں عدالت نے عبدالرحٰمن ملک کو نوٹس جاری کردیا۔

نواز اور شہاز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹادی گئی

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت بھی ہوئی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار محمود اختر نے بتایا کہ پاناما فیصلے کے بعد نواز شریف جلوس کی صورت میں عدالتی تضحیک کرتے رہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو بیانات عدالت کے بارے میں آرہے ہیں وہ ہمارے پاس موجود ہیں، مناسب وقت دیکھ کر ہم ان بیانات کو دیکھیں گے۔

اس موقع پر شہباز شریف کے خلاف درخواست دائر کرنے والے گزار محمود نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بیان دیا کہ ملک میں ججز اور جرنیلوں نے انصاف نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست قابل سماعت قرار

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات تو سچ ہے، اس ملک کے ساتھ کسی نے انصاف نہیں کیا، ہم نے حقیقی معنوں میں اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں، اگر ذمہ داریاں ادا کی جاتیں تو آج حالات یہ نہ ہوتے۔

بعد ازاں عدالت نے نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں غیر موثر ہونے پر نمٹا دیں۔

لیگی رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کی سماعت

اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں، وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور امیر مقام کے خلاف بھی توہین عدالت کیسز کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس اور درخواست گزار کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔

سماعت کے دوران درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ تقریر میں کہا گیا کہ بھٹو کی پھانسی جائز تھی اور عدلیہ کو گاڈ فادر کہا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ توہین عدالت ہے۔

جس پر درخواست گزار نے کہا کہ تقریر میں کہا گیا کہ عدلیہ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات بالکل درست ہے، عدلیہ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔

درخواست گزار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی نے بھی توہین عدالت کی۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نہال ہاشمی کے خلاف ہم نے دوسرا توہین عدالت کا نوٹس لے لیا ہے وہ بیچارہ پہلے ہی پھنسا ہوا ہے، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ مجھے بھی نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس میں فریق بنائیں تاہم عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی خدائی خدمت کا وقت گزر چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: نہال ہاشمی پر ایک مرتبہ پھر فرد جرم عائد ہونے کا امکان

خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نہال ہاشمی کو دھمکی آمیز تقریر اور توہینِ عدالت کیس میں ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد انہوں نے اڈیالہ جیل میں قید گزاری تھی۔

بعد ازاں 28 فروری کو نہال ہاشمی کو ایک ماہ کی قید کی سزا کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر عدلیہ اور ججز کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی تھی، جس پر عدالت نے دوبارہ نوٹس لیا تھا۔

جس کے عدالت نے نہال ہاشمی کو طلب کیا تھا جبکہ ان کی جانب سے جمع کرایا گیا تحریری جواب مسترد کردیا تھا جس کے بعد نہال ہاشمی پر 26 مارچ کو ایک مرتبہ پھر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے۔

دریں اثناء سپریم کورٹ میں متفرق کیسز کے دوران چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس تو پرانا مقدمہ ہے، جس پر درخواست گزار حشمت حبیب نے کہا کہ یہ مقدمہ 2014 سے زیر التوا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اب نئی توہین عدالت کو دیکھ رہے ہیں، جس پر حشمت حبیب نے کہا کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا کیس چلانا چاہتا ہوں، جس پرعدالت نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے ہم مقدمے کی کوئی تاریخ فکس کردیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں