اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست مسترد کردی۔

درخواست جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما شیخ احسن الدین کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نواز شریف نے نااہل ہونے کے بعد جی ٹی روڈ پر تقریر کی، جس میں عدالت کی توہین کی گئی۔

شیخ احسن الدین نے درخواست میں الزام لگایا کہ نواز شریف نے اپنی تقاریر میں تمام حدیں پار کیں، جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے پر رائے کا اظہار کرنا شہری کا حق ہے، ہوسکتا ہے انہوں نے اس سے زیادہ کہا ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا ان کی پارٹی 20 کروڑ لوگوں کی نمائندہ جماعت ہے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست قابل سماعت قرار

شیخ احسن الدین نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف نے 3 کروڑ سے بھی کم ووٹ لیے اور اپنے آپ کو 20 کروڑ عوام کا نمائندہ کہلواتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شیخ احسن الدین، توہین عدالت کا نوٹس ہم نے لینا ہے آپ نے نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی درگز نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، جس پر شیخ عظمت سعید نے موقف اختیار کیا کہ آپ زیادہ عدالتی در گزر سے کام لے رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ درخواست گزار سے زیادہ عدالت کی درگزر کی حدیں ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست مسترد کردی۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے شیخ احسن الدین کی درخواست پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست قابل سماعت قرار

خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پاناما کیس میں بیٹے کی کمپنی سے قابل وصول تنخوا کو ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا تھا۔

نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا تاہم بعد ازاں فیصلے کے بعد شدید بیانات دیتے رہے اور فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو کمزور قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی سمیت دیگر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ

تبصرے (0) بند ہیں