پاکستان سپر لیگ کا تیسرا سیزن پوری آن، بان اور شان سے جاری ہے۔ لاہور قلندرز کی پے در پے شکستوں کے بعد مسلسل فتوحات سب کو حیران کر رہی ہیں لیکن ابتدائی 6 مقابلوں میں ہار کا داغ اتنا آسان نہیں کہ دھل جائے یعنی قلندروں کا اخراج تو یقینی ہے۔

اب فیصلہ صرف یہ ہونا ہے کہ قلندروں کے ساتھ ساتھ دوسرا کون باہر جائے گا؟ اس سوال کا جواب تو ہمیں آئندہ چند روز میں مل ہی جائے گا البتہ ایک سوال ایسا ہے جو ہر سیزن کے بعد ذہنوں میں ابھرتا ہے۔ وہ سوال ہے پی ایس ایل میں اب تک کس نوجوان کھلاڑی نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟

پہلے سیزن میں حسن علی اور محمد نواز ابھرنے والے نئے کھلاڑی تھے، جبکہ دوسرے سیزن سے شاداب خان جیسا اسپنر قومی ٹیم کو ملا لیکن تیسرے سیزن کی دریافت کسے کہنا چاہیے؟

اعداد و شمار دیکھیں تو اس سیزن میں بہترین باؤلرز کے طور پر ہمیں کئی نوجوانوں کے نام نظر آ رہے ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے فہیم اشرف 12 وکٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں اور ملتان سلطانز کے عمران طاہر کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ 10 وکٹیں لینے والے باؤلرز میں کراچی کنگز کے عرفان جونیئر کا نام بھی موجود ہے۔ اگرچہ وہ کچھ مہنگے ضرور ثابت ہوئے ہیں لیکن اپنی رفتار سے متاثر بھی کیا ہے۔

مزید پڑھیے: پی ایس ایل: اب شارجہ میں ہوگا فیصلہ!

پشاور زلمی کے عمید آصف نے تو پہلے ہی مقابلے سے اچھا آغاز لیا اور اب تک 8 کھلاڑیوں کا شکار کرچکے ہیں۔ ابتسام شیخ اور حسان خان بھی اپنی کارکردگی سے متاثر کرچکے ہیں لیکن بلے بازی میں کوئی ایسا نام نظر نہیں آ رہا کہ جسے پی ایس ایل کی دریافت کہا جاسکے۔

لاہور قلندرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان ہونے والے آخری مقابلے میں فخر زمان نے 50 گیندوں پر 94 رنز بنائے، اسے سیزن کی بہترین اننگز کہا جاسکتا ہے جس میں 6 چھکے اور 9 چوکے شامل تھے۔ یہ اننگز سنچری تک پہنچنے کی حقدار تھی لیکن چھکے کے ذریعے تہرے ہندسے تک پہنچنے کی کوشش ناکام ثابت ہوئی۔

بہرحال، یہ سیزن تھری کی اب تک کی سب سے بڑی اننگ ہے۔ سیزن کی طویل ترین اننگز دیکھیں تو اکّا دکّا پاکستانی ہی نظر آتے ہیں جیسا کہ صہیب مقصود نے پشاور زلمی کے خلاف مقابلے میں ناٹ آؤٹ 85 رنز بنائے تھے۔ یہ الگ بات ہے کے وہ اس کے علاوہ شاذ ہی ملتان کے کام آئے۔ پھر 'سدا بہار' شعیب ملک کی کوئٹہ کے خلاف 65 رنز کی اننگز ہے۔ لیکن بلّے بازی میں یہ وہ نام ہیں جو پاکستان کے لیے کھیلتے ہیں یا کھیل چکے ہیں۔

ان کے علاوہ دیکھیں تو غیر ملکی بیٹسمین چھائے ہوئے ہیں۔ شین واٹسن کے 90 ناٹ آؤٹ بہت نمایاں ہیں۔ جو ڈینلی کی 78رنز کی فاتحانہ اننگز بھی سب کے سامنے تھی۔ لیوک رونکی تو ڈھکے چھپے ہیں ہی نہیں جو 2 مرتبہ 70 سے زیادہ رنز کی اننگز کھیل چکے ہیں۔ جے پی دومنی اور کیرون پولارڈ نے بھی 73، 73 رنز کی ایک اننگز کھیل رکھی ہے۔ کمار سنگاکارا بھی 3 نصف سنچریاں بنا چکے ہیں۔ لاہور کے انتون ڈیوسچ نے بھی 62 رنز کی ایک اننگز کھیلی ہے جبکہ 60 سے زیادہ رنز بنانے والوں میں صرف ایک اور پاکستانی کا نام آتا ہے، بابر اعظم، جنہوں نے لاہور کے خلاف ہارے ہوئے میچ میں 61 رنز بنائے تھے۔

مزید پڑھیے: پاکستان سپر لیگ کے خلاف گھٹیا پروپیگنڈا اور اس کا جواب

باقی نئے بیٹسمین کہاں ہیں؟ کچھ نہیں معلوم۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیموں کی حکمت عملی بالکل واضح نظر آ رہی ہے کہ وہ بلے بازی میں غیر ملکی کھلاڑیوں پر انحصار کر رہے ہیں اور باؤلنگ میں پاکستانیوں پر اور یوں جیت کا آسان فارمولا بن گیا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صورت حال پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے لیے مایوس کن ہے۔ پاکستان کو اس وقت بلے بازوں کی سخت ضرورت ہے۔ بلاشبہ باؤلنگ بھی بہت اہم ہے اور اس میں بھی نئے ٹیلنٹ کا آنا بہت ضروری ہے لیکن جس شعبے میں سخت کمی ہے، وہ بلے بازی کا شعبہ ہی ہے۔

اگرچہ پی ایس ایل 3 میں ہمیں فیلڈنگ کے شعبے میں بہت ہی عمدہ مظاہرے دیکھنے کو ملے، بالخصوص نوجوان پاکستانی کھلاڑیوں کی طرف سے جس کو دیکھنے کے بعد یہ اطمینان ضرور ہوا کہ اس شعبے کی کمزوری مستقبل میں دور ہونے کا امکان روشن ہوچکا ہے، لیکن بلے بازی میں کچھ نظر نہیں آتا۔

لیکن خدانخواستہ معاملہ ایسا بھی نہیں کہ ہمیں کچھ بھی نہیں ملا، کیونکہ چند کھلاڑی ایسے ضرور ہیں جن پر اگر کام کیا جائے تو وہ مستقبل میں پاکستان کرکٹ کے لیے بڑا اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں جیسا کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے نوجوان حسین طلعت ہیں۔ خاص طور پر ملتان سلطانز کے خلاف انہوں نے 48 رنز کی جو فاتحانہ اننگز کھیلی، اس نے بہت حیران کیا ہے۔ 114 رنز کے تعاقب میں 5 وکٹیں گرنے کے بعد حسین طلعت نے میدان سنبھالا اور تن تنہا اسلام آباد کو یہ میچ جتوا دیا۔ یہی نہیں بلکہ لاہور قلندرز کے خلاف لو-اسکورنگ مقابلے میں اس وقت 33 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی جب 6 وکٹیں 70 رنز پر گرچکی تھیں اور اننگز کو آگے لے جانے والا کوئی نہیں بچا تھا۔ یہی وہ مقابلہ تھا جو بعد میں ٹائی ہوا اور اسلام آباد سپر اوور میں جیتا۔ پھر پشاور کے خلاف 24 گیندوں پر 29 اور ملتان کے خلاف 21 گیندوں پر 36 رنز نے بھی اسلام آباد کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا۔

حسین اب تک 8 میچوں میں 41 سے زیادہ کے اوسط اور 134 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 165 رنز بنا چکے ہیں جن میں ناٹ آؤٹ 48 رنز ان کا بہترین اسکور ہے جبکہ 7 چھکے بھی ان کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ لاہور قلندرز گو کہ مقابلے کی دوڑ سے باہر ہے لیکن اس کے آغا سلمان نے بھی کچھ متاثر کن اننگز کھیلیں جیسا کہ کراچی کنگز کے خلاف اہم ترین مقابلے میں 50 رنز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے مقابلے میں 48 رنز کی اننگز۔

مزید پڑھیے: بلندیوں سے زوال تک ملتان کا سفر!

درحقیقت نئے ٹیلنٹ کی تلاش کا کام تمام ٹیموں میں صرف لاہور قلندرز نے ہی کیا ہے لیکن اس میں بھی زیادہ زور باؤلرز پر رہا ہے۔ پچھلے سیزن میں محمد عرفان جونیئر سے لے کر اب سلمان ارشاد تک، شاہین آفریدی سے لے کر ابتسام شیخ تک، زیادہ تر نمایاں نام باؤلرز کے ہیں۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے جتنے بھی بیٹسمین مل رہے ہیں، جن میں صلاحیت نظر آتی ہے، ان کو نکھارا جائے اور تاکہ انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کے سب سے بڑے مسئلے، یعنی بیٹنگ، کو حل کیا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

naeem zaidi Mar 15, 2018 01:21pm
sir second PSL product was fakhar Zaman.
naeem zaidi Mar 15, 2018 01:24pm
i do agree for Hussain Talat i think we need to polish Agha Salman, Sohail AKhtar & Asif ALi.
Abdul samad Mar 15, 2018 08:31pm
میرے خیال میں آپ کرکٹ کی زیادہ سمجھ نہیں ہے. آپ ایک بیٹسمن کو صرف ٹی 20 کی نظر سے مت دیکھے. آپ اسکو بھی دیکھا کریں کہ پیچ کیسی ہے. بیٹسمن کی ٹیکنیک کیسی ہے. وہ سٹرائیک روٹیٹ کرسکتاہے یا نہیں. پریشر میں وہ کیسے کھیلتے ہے. اور کارکردگی کنسسٹنٹ ہے یا نہیں. تو اس معاملے میں آصف علی حسین طلعت اسلام آباد یونائیٹڈ آغا سلمان لاہور قلندر سے آپکو مل گئے ہیں. کچھ باتیں یہاں کافی مایوس کن ہے جیسے ملتان سلطان اور کراچی کنگ نے سیف بدر اور حسن محسن لیے. لیکن انکو پورا موقع بالکل نہیں دیاگیا. ورنہ یہ کھلاڑی بھی کچھ کر دیکھا سکتے تھے. میرے خیال میں مصباح اور برڈن میکولم نے اپنے کھلاڑیوں پورا موقع دیا. اسی وجہ سے بھی ان میں اعتماد بھی پیدا ہوگیا. لاہور قلندر کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ صرف عمر اکمل تھے. جب وہ ٹیم سے نکل گیا تو ٹیم نے جیتنا شروع کردیا.