سندھ کے ضلع تھرپارکر میں خسرہ کی وبا پھوٹنے اور غذائی قلت کے نتیجے میں مزید 5 بچے ہلاک ہوگئے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران مٹھی کے سول ہسپتال میں 5 بچوں کی ہلاکتوں کے بعد رواں سال تھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 123 تک جاپہنچی ہے۔

بچوں کے والدین نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بچے خسرہ، دیگر انفیکشنز اور بیماریوں سے موت کا شکار ہیں۔

انہوں نے ڈاکٹروں کے نامناسب رویے اور ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات نہ ہونے کا الزام بھی لگایا۔

بچوں کی ہلاکتوں سے متعلق جواب حاصل کرنے کے لیے کئی بار کوشش کرنے کے باوجود ضلعی ہیلتھ افسر (ڈی ایچ او) اور سول ہسپتال کے سرجن سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

مزید پڑھیں: تھر میں بچوں کی اموات: سندھ ہائی کورٹ کارپورٹ پرعدم اطمینان

صحت کے حوالے سے تھر کے مقامی عہدیداروں نے گزشتہ سال سے ضلع میں ہلاکتوں سے متعلق تفصیلات مقامی صحافیوں سے شیئر کرنا روک دی تھیں۔

ان کی جانب سے یہ اقدام تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد مبینہ طور پر محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران کی ہدایت پر اٹھایا گیا تھا۔

تھر میں صحت اور غذائی کمی سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈویلپمنٹ سوسائٹی (ہینڈز) کے سی ای او ڈاکٹر شیخ تنویر احمد نے کہا کہ ’ضلع میں غذائی قلت اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور بچوں کی ہلاکتوں کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: تھر میں مزید 7 بچے ہلاک

سندھ حکومت نے جمعہ کے روز تھر میں قحط جیسی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے ضلع کے عوام میں مفت گندم تقسیم کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔

صوبائی وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے تھر کے 2 لاکھ 87 ہزار غریب خاندانوں میں مفت گندم تقسیم کی منظوری دی اور چیف سیکریٹری کو گندم کی تقسیم کا عمل فوری طور پر بحال کرنے اور اپریل کے آخر تک اسے مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔

تبصرے (0) بند ہیں