عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا وطن واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر اور (ر) آرمی چیف پرویز مشرف کو ان کے قریبی ساتھیوں نے موجودہ سیاسی حالات میں واپسی کا فیصلہ ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ 'میرا پرویز مشرف سے رابطہ نہیں مگر جو لوگ ان کے قریب ہیں، پا کستان واپس آکر ایک نئی مشکل میں پھنسنے سے بچنے کا مشورہ دے رہے ہیں'۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ پرویز مشرف کو پاکستان سے باہر بھیجنے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا اہم کردار تھا اور انہی کی وجہ سے وہ سزا سے بچ کر دبئی روانہ ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کا شناختی کارڈ،پاسپورٹ معطل کرنے کا حکم

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے پیش گوئی کی کہ اگرچہ عدالت نے سابق صدر کی گرفتاری کا حکم دیا، مگر آنے والے وقت میں وہ انہیں واپس آتا نہیں دیکھ رہے۔

واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے کیس کے حوالے سے 8 مارچ کو ہونے والی عدالتی کارروائی کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

تاہم 20 مارچ کو ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے تصدیق کی کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو ناصرف پاسپورٹ کی تاریخ تنسیخ سے دو ماہ قبل نیا پاسپورٹ جاری ہوا بلکہ انہیں ماضی میں ریاست کا سربراہ ہونے کے ناطے دوبارہ سفارتی پاسپورٹ تفویض کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مشرف کی واپسی کی یقین دہانی:’اداروں کو کارروائی سے روک دیا‘

دوسری جانب وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے پرویز مشرف کے تجدید پاسپورٹ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم، میں جائزہ لوں گا‘۔

پرویز مشرف کی ’سیکیورٹی‘ کی درخواست

سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف وطن واپس آنا چاہتے ہیں لیکن اپنی سیکیورٹی سے متعلق شدید تحفظات کا شکار ہے ہیں جس پر عدالت نے حکم دیا کہ وہ پرویز مشرف کی سیکیورٹی کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دیں۔

اختر شاہ نے وزارت داخلہ کو پرویز مشرف کی وطن واپسی سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے ان کی ’فول پروف سیکیورٹی‘ کی درخواست کردی۔

وزارت داخلہ کو پرویز مشرف کے وکیل کی یہ درخواست 13 مارچ کو موصول ہوئی اور اس حوالے سے اس کی مشاورت جاری ہے۔

یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 5 اپریل 2013 کو پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا تھا، جس پر پرویز مشرف نے 6 مئی 2014 کو اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ نے جون 2014 میں مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا جس پر وفاقی حکومت نے فیصلہ کالعدم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

وفاق کی درخواست پر 23 جون 2014 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ ہونے تک سندھ ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیا۔

بعد ازاں 17 مارچ 2016 کو حکومت نے پرویز مشرف کا ای سی ایل سے نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے انھیں علاج کے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔

19 جولائی 2016 کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے غداری کیس میں سابق صدر کی جائیداد ضبط اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔

خصوصی عدالت کے 3رکنی بینچ نے سابق صدر کی گرفتاری تک کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم کی حاضری کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا اور قانون کے مطابق ملزم کا غیر حاضری پر ٹرائل نہیں ہوسکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں