انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور میں مسیحی جوڑے کو بھٹہ میں زندہ جلانے کے 20 ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

ملزمان کے خلاف تھانہ کوٹ رادھا کشن میں جوڑے کو زندہ جلانے کا مقدمہ درج تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 2 کے جج نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے ملزمان فریاد، بابر علی، اسلام دین، ذوالفقار علی، ارشد علی، جاوید، عابد، صابر، محمد شریف، سرفراز، سلطان، آفتاب، محمد اشرف، عابد حسن، آصف اور اویس سمیت 20 ملزمان کو بری کرنے کا حکم جاری کیا۔

عدالت اس سے قبل اسی کیس میں 5 ملزمان کو سزائے موت جبکہ 10 کو دو، دو سال قید کی سزا سنا چکی ہے۔

یاد رہے کہ نومبر 2014 میں لاہور سے 60 کلومیٹر دور شہر کوٹ رادھا کشن میں ایک اینٹھوں کے بھٹہ پر مشتعل ہجوم نے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی پر ایک مسیحی جوڑے کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو جلا دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'قرآن کی بےحرمتی' پر عیسائی جوڑا قتل

پولیس کا کہنا تھا کہ مشتعل ہجوم نے اینٹھوں کے بھٹہ پر کام کرنے والے مسیحی میاں بیوی 25 سالہ شمع اوراس کے شوہر شہزاد پر قرآن پاک کی توہین کا الزام لگاتے ہوئے حملہ کر دیا اور بعد میں ان کی لاشیں جلا دیں۔

پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق مساجد سے ہونے والے اعلانات میں گاؤں کے لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ یوسف اینٹوں کے بھٹے پر اکھٹا ہوں، جہاں شمع اور اس کا شوہر شہزاد مسیح غلامانہ مزدوری کرتے تھے۔

تین گاؤں سے ایک ہزار سے زیادہ مشتعل افراد کا ہجوم اس کمرے کے پاس پہنچا، جہاں اس مسیحی جوڑے نے پناہ لی ہوئی تھی، انہوں نے اس کمرے کی چھت توڑ کر انہیں وہاں سے نکالا۔ ہجوم نے اس جوڑے کو اینٹوں کی بھٹی میں پھینکنے سے پہلے ان پر تشدد بھی کیا تھا۔

مشتعل ہجوم انہیں گھسیٹتے ہوئے بھٹی کے پاس لے گیا، جہاں بھٹی کا مالک محمد یوسف گجر اور اس کا منشی شکیل اور افضل سمیت 18 ملزمان موجود تھے، جنھوں نے مبینہ طور پر دہکتی ہوئی بھٹیوں میں سے ایک کا ڈھکن ہٹایا اور اس جوڑے کو اس کے اندر پھینک دیا۔

مزید پڑھیں: 'زندہ جلائی جانے والی مسیحی خاتون حاملہ تھی'

کوٹ رادھا کشن پولیس اسٹیشن نے واقعے کا مقدمہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 302، 436، 201، 148، 149، 353 اور 186 اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت درج کیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی سانحہ کوٹ رادھا کشن کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت کو جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں