دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں پر مشتمل پاکستان کے شمالی علاقہ جات قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہیں۔ اُن وسائل میں جنگلات، جنگلی حیات، قیمتی معدنیات، زرعی پیداوار بالخصوص پھل اور میوہ جات قابلِ ذکر ہیں۔ زراعت کے شعبے میں مویشی بانی کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔ ان علاقوں میں یاک، عمدہ اون والی بھیڑ بکریاں اور گھوڑے پالے جاتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِن علاقوں کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھایا جاتا اور علاقے اور مقامی افراد کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جاتے مگر ہوا اس کے برعکس۔ ان علاقوں کے قدرتی وسائل کا بے دردی سے استعمال کیا جاتا رہا، مثلاً بیشتر پہاڑی جنگلات کاٹ کر فروخت کردیے گئے، جنگلی حیات کو اندھا دھند شکار کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا، اسی وجہ سے مارکو پولو بھیڑ، استور مارخور، آئی بیکس، برفانی تیندوا اور متعدد قسم کے پہاڑی جنگلی مرغ، چکور اور تیتر نایاب ہوچکے ہیں۔

شمالی علاقہ جات میں مارخور سمیت دیگر کئی جانور نایاب ہوچکے ہیں—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ
شمالی علاقہ جات میں مارخور سمیت دیگر کئی جانور نایاب ہوچکے ہیں—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ

ان علاقوں میں جنگلی حیات کی نایابی نے ایک انوکھے منصوبے کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے جنگلی حیات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ ہے ٹرافی ہنٹنگ یا جسے شکار ٹرافی بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نایاب جانوروں مثلاً آئی بیکس اور مارخور کا شکار صرف انعامی ٹرافی کے لیے کیا جائے اور شکار کے لیے باقاعدہ سرکار سے اجازت نامہ حاصل کیا جائے۔ اس اجازت نامے کے لیے ایک مخصوص رقم ادا کرنی پڑتی ہے جس کا 80 فیصد مقامی آبادی کو دیا جاتا ہے تاکہ مقامی افراد کی فلاح و بہبود اور جانوروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔

پڑھیے: ایک کروڑ روپے میں مارخور کا شکار

اس طرح مقامی آبادی کو ترغیب ملتی ہے کہ وہ ان نایاب جانوروں کا نہ صرف خود شکار کرنے سے گریز کریں بلکہ ان کی حفاظت بھی کریں۔ واضح رہے کہ حکومت ان جانوروں کے شکار کا اجازت نامہ صرف اس صورت میں جاری کرتی ہے جب یہ اطمینان ہوجائے کہ جانوروں کی مجموعی تعداد ان کی نسل برقرار رکھنے کے لیے کم از کم مطلوبہ تعداد سے بڑھ گئی ہے۔

شکار ٹرافی سے حاصل ہونے والی رقم مقامی آبادی کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے۔ یہ ’پائیدار استعمال کے ذریعے بقائے ماحول‘ کا اصول کہلاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’ہمارے لیے یہ کسی خواب سے کم نہیں کہ جس جانور کا گوشت ہفتے بھر نہ چل سکے اس کی قیمت ایک لاکھ ڈالرز تک جاسکتی ہے۔‘

ہوشے میں ٹرافی شکار کا ایک منظر—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ
ہوشے میں ٹرافی شکار کا ایک منظر—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ

’پائیدار استعمال کے ذریعے بقائے ماحول‘ کا یہ اصول بقائے ماحول کی عالمی انجمن انٹرنیشنل یونین آف کنزورویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے 90 کی دہائی میں متعارف کروایا تھا۔ یہ تجربہ اس سے پہلے جنوبی افریقہ میں کیا گیا تھا۔ اس اصول کے تحت مقامی آبادی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جنگلی حیات اور نباتاتی وسائل کے تحفظ کا ایسا انتظام کریں کہ مقامی لوگ ان سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کی ذمے داری بھی اٹھائیں۔

کیمپ فائر (CAMPFIRE) نامی یہ منصوبہ بہت کامیاب رہا لہٰذا آئی یو سی این نے پاکستان میں اسی تجربے کو دہرانے کا فیصلہ کیا۔ 1995ء میں اس منصوبے کو تجرباتی طور پر شمالی پاکستان میں شروع کیا گیا تب سے لے کر آج تک یہ منصوبہ کامیابی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی عملی مثال بنا ہوا ہے۔ ابتدا میں ٹرافی ہنٹنگ کی فیس 1 ہزار ڈالر تھی لیکن یہ اب 1 لاکھ ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔

اس سال بھی کئی غیر ملکی شکاریوں نے آئی بیکس اور مارخور کا شکار کیا۔ گلگت بلتستان کے محکمہء پارکس و جنگلی حیات کے کنزرویٹر یعقوب علی نے بتایا کہ تازہ ترین شکار امریکی شکاری کیوین اسٹیوارٹ نے استور مارخور کا کیا ہے جس کے لیے اُنہوں نے 75 ہزار امریکی ڈالرز ادا کیے۔ یہ شکار اسکردو ضلع کے ایس کے بی علاقے میں کیا گیا۔ اس مارخور کی سینگوں کا سائز 45 انچ تھا۔

ہمالیہ آئی بیکس—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ
ہمالیہ آئی بیکس—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ

گلگت بلتستان میں 10 اضلاع ہیں، یعقوب صاحب نے بتایا کہ ان 10 اضلاع میں 38 علاقوں میں ٹرافی ہنٹنگ منصوبے کے تحت جنگلی حیات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں کو کمیونٹی کنٹرول ہنٹنگ ایریاز (سی سی ایچ اے) کہا جاتا ہے۔ یہ علاقے کُل رقبے کا 55 فیصد ہیں جہاں جانوروں کے تحفظ پر کام جاری ہے۔

پڑھیے: ایک آدمی کی آخری برفانی تیندوے بچانے کی کاوش

یہ ٹرافی ہنٹنگ پروگرام گلگت بلتستان کے محکمہء پارک و جنگلی حیات کے تحت چلایا جارہا ہے۔ یعقوب صاحب نے مزید بتایا کہ ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں کھلی آفر کرتے ہیں اور جانوروں کے شکار کے پرمٹ کی نیلامی ہوتی ہے۔ جانوروں کی 3 انواع مارخور، آئی بیکس اور بلیو شیپ کی ٹرافی ہنٹنگ کی جاتی ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ کا سیزن اکتوبر سے اپریل تک ہوتا ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں آئی بیکس کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ ہے جبکہ مارخور کی تعداد 22,00 ہے۔

بلیو شیپ کافی محدود علاقے میں پائی جاتی ہیں لیکن اُن کی آبادی خاصی زیادہ ہے، ان کی تعداد 8 ہزار ہے۔ مارخور کی کم تعداد کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ چوں کہ یہ مرطوب آب و ہوا اور کم بلندی والے علاقوں میں پایا جاتا ہے اس لیے اس کا شکار بھی آسان ہے۔ یہ بہت زیادہ برفانی بلندیوں پر نہیں رہ سکتا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کے غیر قانونی شکار پر قابو پالیا گیا ہے اور تازہ سروے کے نتائج بتا رہے ہیں کہ ان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔

بلیو شیپ سمیت مارخور اور آئی بیکس کی ٹرافی ہنٹنگ کی جاتی ہے—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ
بلیو شیپ سمیت مارخور اور آئی بیکس کی ٹرافی ہنٹنگ کی جاتی ہے—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ

شکار کے پرمٹ کی نیلامی اگست یا ستمبر تک مکمل کرلی جاتی ہے تاکہ اکتوبر سے شکار کیا جاسکے۔ ضروری نہیں کہ شکاری صرف غیر ملکی ہوں، وہ ملکی اور مقامی بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے لیے شکار کے پرمٹ کی فیس بھی کم ہوتی ہے۔

یعقوب صاحب نے بتایا کہ جانوروں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے سال میں 2 مرتبہ سروے کروایا جاتا ہے۔ کل تعداد کے صرف 10 فیصد جانوروں کی ٹرافی ہنٹنگ کی جاتی ہے وہ بھی صرف ان نر جانوروں کی جن کے سینگوں کا سائز 36 انچ سے زائد ہو۔

ٹرافی ہنٹنگ سے جو بھی فیس وصول ہوتی ہے اس کا 80 فیصد متعلقہ کمیونٹی کو دیا جاتا ہے۔ شکار کا سیزن ختم ہونے کے بعد رقم ایک کراس چیک کے ذریعے مقامی تنظیم کو ایک تقریب میں دی جاتی ہے جس کے مہمانِ خصوصی عموماً گورنر یا کوئی وزیر وغیرہ ہوتا ہے۔

مقامی آبادی کنزرویشن کمیٹی بنا لیتی ہے، اس کمیٹی کی جانچ متعلقہ ڈپٹی کمشنر اور فاریسٹ افسر کرتے ہیں۔ اس کمیٹی کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے کہ آیا مقامی افراد کی فلاح و بہبود اور جانوروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔ ہر طرح کے اطمینان کے بعد ہی اُنہیں رقم دی جاتی ہے۔ کمیونٹی کنزرویشن کمیٹیاں شکار کا یہ پیسہ مقامی آبادی کی فلاح و بہبود اور جانوروں کی حفاظت پر خرچ کرتی ہیں۔ جانوروں کی حفاظت کے لیے مقامی تنظیم اپنے نگران بھی مقرر کرتی ہے تاکہ غیر قانونی شکار کا راستہ روکا جاسکے۔

آئی بیکس کا ایک جھنڈ—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ
آئی بیکس کا ایک جھنڈ—تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ

محمد ظفر گلگت یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں، انہوں نے حال ہی میں ایک بین الاقوامی جریدے کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پر ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔ ظفر ٹرافی ہنٹنگ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس کی ابتدا آئی یو سی این کے ایم اے سی پی منصوبے سے ہوئی تھی۔ اپر ہنزہ اور گوجال میں تو ٹرافی ہنٹنگ کافی عرصے سے ہورہی ہے، اب تک ان آبادیوں نے کروڑوں میں ریونیو بھی کمایا ہے لیکن اصل نکتہ یہ ہے کہ اس منصوبے کا مقصد آبادیوں کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ جنگلی حیات کی فلاح و بہبود ہے۔

پڑھیے: تحفظ جنگلی حیات

مقامی آبادیوں کو جو رقم ملتی ہے اس کا 30 فیصد جانوروں کے مسکن کی بہتری اور ترقی پر خرچ کرنا چاہیے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد مقامی آبادیوں سے جانوروں کے تحفظ کے لیے حمایت اور مدد حاصل کرنا ہے تاکہ پائیدار ترقی کا راستہ کھلا رہے۔ شکار کے پرمٹ جاری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جانوروں کی تعداد کا باقاعدگی کے ساتھ سروے کیا جائے اور صرف تعداد کی بنیاد پر شکار کا فیصلہ نہ کیا جائے بلکہ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ جانوروں کی آبادی میں مادہ اور نر کا توازن برقرار ہے، یہ نہ ہو کہ آبادی میں کسی ایک صنف کی بہتات ہوجائے۔

ہنزہ کے گلکن گاؤں کی تنظیم گلکن نیچرل کنزرویشن سے وابستہ احمد کریم بتاتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے غیر قانونی شکار کو کنٹرول کرتے ہیں، جس کے لیے ملازمین رکھے جاتے ہیں۔ جانوروں کے لیے علاقوں میں سبزے کی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ علاقوں کو سرسبز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان جانوروں کو نمکیات بھی بہت پسند ہیں لہٰذا ان کے لیے نمکیات کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔

مقامی افراد کو ملنے والا یہ پیسہ لوگوں کی سماجی اور معاشی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جاتا ہے جس میں اسکول کی عمارات بھی تعمیر کی جاتی ہیں۔ پانی کی ندیوں نالوں کی استر کاری بھی کی جاتی ہے، پانی کی اسکیموں کی مرمت وغیرہ اور شجر کاری پر بھی یہ رقم خرچ ہوتی ہے۔

اس رقم سے غریب آبادیوں میں خود انحصاری کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جس سے تحفظ ماحول کی کاوشوں کو اپنی منزل ملتی نظر آرہی ہے، اس کے علاوہ یہ مقامی آبادی کے لیے ایک بڑی ترغیب بھی ہے جو انہیں ماحول کے تحفظ کی جانب کھینچ لاتی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں قانون پر عمل داری بہت کم نظر آتی ہے وہاں جس طرح مقامی لوگوں نے ان علاقوں میں خود کو اس اجتماعی عمل کے لیے تیار کیا، اور اپنے اردگرد موجود قدرتی وسائل مثلاً جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل کوبروئے کار لارہے ہیں، یہ واقعی ایک قابل تعریف عمل ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

aftab rana Apr 05, 2018 08:15pm
Very informative article. This program can also contribute for the promotion sustainable tourism in these areas. We also need to promote wildlife watching trips as is done in many African countries. It will generate much needed revenue even without killing any wild animal.