لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے تیسری مرتبہ نیا بینچ تشکیل دے دیا گیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے تیسری مرتبہ فل بینچ تشکیل دیا گیا اور جسٹس شاہد مبین کی جگہ جسٹس شاہد جمیل خان کو بینچ میں شامل کرلیا گیا۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل ہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد یاور علی کی جانب سے دوسری مرتبہ تشکیل دیا گیا بینچ بھی تحلیل ہوگیا تھا اور جسٹس شاہد مبین نے ذاتی وجوہات کی بنا پر کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی۔

مزید پڑھیں: نوازشریف کی عدلیہ مخالف تقاریر: نیا بینچ بھی تحلیل

چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیئے گئے اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس مظاہر علی نقوی کریں گے جبکہ کیس کی سماعت جمعرات 5 اپریل کو ہوگی۔

یاد رہے کہ پہلی مرتبہ تشکیل دیئے گئے بینچ میں جسٹس شاہد بلال حسن کو شامل کیا گیا تھا تاہم ان کی ملتان بینچ میں منتقلی کے بعد بینچ تحلیل ہوگیا تھا اور ان کی جگہ جسٹس شاہد مبین کو نئے بینچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔

تاہم دوسرے بینچ کا حصہ بننے والے جسٹس شاہد مبین نے بھی ذاتی وجوہات پر اس کیس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی اور بینچ تحلیل ہوگیا تھا۔

واضح رہے کہ نواز شریف، مریم نواز اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف درخواستیں آمنہ ملک، منیر احمد اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئیں تھیں، جن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنی تقاریر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہدف تنقید بنایا ہوا ہے۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ پیمرا نے مذکورہ تقاریر کے نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی اور اس کی خاموشی کے باعث نفرت انگیز تقاریر اور بیانات نشر ہوئے جبکہ ادارہ قانون اور ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ: وزیر اعظم کو عدلیہ مخالف تقریر پر نوٹس جاری

پٹیشنز میں کہا گیا تھا کہ پیمرا ایک ریگولیٹر کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اور وہ حکومت کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کررہا ہے۔

درخواست گزاروں نے زور دیا تھا کہ پیمرا حکام کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ملازم نہیں ہیں اور انہیں ہر صورت میں پاکستانی شہریوں اور ملک کے اداروں کا تحفظ کرنا تھا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ پیمرا کو ہدایت کی جائے کہ وہ میڈیا کو ریاست کے اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کا غیر قانونی مواد اور تنقید کو نشر نہ کرنے کا پابند کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں