اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی تقرری کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تقرری کے خلاف درخواست کی سماعت کی، اس دوران درخواست گزار ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے بیرسٹر ظفر علی بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ ریاض راہی نے عدالت سے درخواست کی کہ مجھے کیس کی تیاری کے لیے وقت دیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے ایک ساتھ 4 مقدمات لگے ہوتے ہیں، تیاری کے لیے وقت نہیں دینگے۔

مزید پڑھیں: وکلاء برادری کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف درخواست پر تحفظات کا اظہار

اس دوران درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو براہ راست چیف جسٹس لگایا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں غلط کیا ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ آرٹیکل 193 میں چیف جسٹس بلوچستان یا ہائی کورٹ کا جج لگانے کا طریقہ کار موجود ہے، جس پر عمل نہیں کیا گیا۔

سماعت کے دوران درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جب چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بنے تو اس وقت وہ قائم مقام گورنر بلوچستان تھے اور جج کی تقرری کے لیے وزیر اعلٰی سے مشورہ لینا آئینی ذمہ داری ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی تمام باتیں غیر متعلقہ ہیں۔

اس موقع پر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی اییشن کے بیرسٹر علی ظفر نے درخواست میں فریق بننے کی کوشش کی اور کہا کہ جج کی تعیناتی کا طریقہ کار شفاف ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بار سمجھتی ہے کہ اگر جج کی تعیناتی شفاف عمل سے نہیں ہوئی تو عدالت خود احتساب کرے اور فیصلہ کرے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 1999 میں وزیر اعلیٰ اور چیف جسٹس کی مشاورت سے جج تعینات ہوتا تھا لیکن اس وقت بلوچستان ہائیکورٹ کے تمام ججز مستعفی ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہے کہ پہلے جج تعینات ہوتا اور پھر چیف جسٹس، اس لحاظ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تقرری غیرقانونی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر چیف جسٹس ہو ہی نہیں تو جج کیسے تعینات ہوگا، اس وقت پہلے چیف جسٹس تعینات ہوا پھر ججز کو تعینات کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الجہاد کیس کے فیصلے کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس جج کی تعیناتی نہیں کرسکتا۔

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سے مشاورت ہونی چاہیے تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں کہ وزیر اعلیٰ سے مشاورت نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حالات کو دیکھتے ہوئے ان کی تعیناتی میں کیا بے ضابطگی ہوئی، آپ کو کیا معلوم گورنر اور وزیر اعلیٰ نے ٹیلی فون پر مشاورت کرلی ہو۔

اس موقع پر عدالت نے ریاض حنیف راہی کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف درخواست خارج کردی اور کہا کہ اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کےخلاف پٹیشن سماعت کیلئے مقرر

خیال رہے کہ درخواست گزار ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تقرری کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ آئین میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جس کے تحت صوبے میں کسی کو براہ راست چیف جسٹس تقرر کردیا جائے اور جسٹس قاضی عسییٰ کے کیس میں آئین کے آرٹیکل 196 اور 200 کا خاطر میں نہیں لایا گیا۔

تاہم اس درخواست 13 مارچ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیمبر میں سماعت کے دوران ایڈووکیٹ ریاض راہی کی درخواست پر سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ہدایت کی تھی درخواست کو برقرار رکھنے کے حوالے سے سپریم کورٹ بینچ فیصلہ دے گی۔

نواز شریف اور دیگر کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں خارج

دوسری جانب سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں عدم پیروی پر خارج کردیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران درخواست گزار ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے استدعا کی کہ مجھے کچھ اضافی وقت دیا جائے، دستاویزات جمع کرانا چاہتا ہوں۔

اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو مزید وقت نہیں دے سکتے، اگر دلائل دینے ہیں تو دیں، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ آج دلائل نہیں دے سکتا، سفر میں تھا تیاری نہیں کرسکا۔

اس موقع پر عدالت نے دونوں شخصیات کے خلاف درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردیں۔

تبصرے (0) بند ہیں