سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور دیگر رہنماؤں کے خلاف عدلیہ مخالف تقاریر کی درخواستوں کی سماعت کے لیے تشکیل دیا گیا فل بینچ تیسری مرتبہ بھی تحلیل ہوگیا، جس کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا۔

تیسری مرتبہ تشکیل دیے گئے بینچ میں شامل جسٹس شاہد جمیل خان نے ذاتی وجوہات کے باعث سماعت سے معذرت کرلی۔

جسٹس شاہد جمیل کی معذرت کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد یاور علی نے ان کی جگہ جسٹس مسعود جہانگیر کو فل بینچ میں شامل کرلیا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی عدلیہ مخالف تقاریر: بینچ تیسری مرتبہ تشکیل

نئے بینچ کے سربراہ بھی جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی ہیں جبکہ ان کے علاوہ جسٹس عاطر محمود اور جسٹس مسعود جہانگیر بھی اس بینچ کا حصہ ہوں گے، جو پیر 9 اپریل کو کیس کی سماعت کرے گا۔

یاد رہے کہ پہلی مرتبہ تشکیل دیئے گئے بینچ میں جسٹس شاہد بلال حسن کو شامل کیا گیا تھا تاہم ان کی ملتان بینچ میں منتقلی کے بعد بینچ تحلیل ہوگیا تھا اور ان کی جگہ جسٹس شاہد مبین کو نئے بینچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔

تاہم دوسرے بینچ کا حصہ بننے والے جسٹس شاہد مبین نے بھی ذاتی وجوہات پر اس کیس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی اور بینچ تحلیل ہوگیا تھا۔

اس کے بعد 2 روز قبل ہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد یاور علی نے تیسری مرتبہ نیا بینچ تشکیل دیا تھا اور جسٹس شاہد مبین کی جگہ جسٹس شاہد جمیل خان کو اس میں شامل کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے بھی ذاتی وجوہات پر کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔

واضح رہے کہ نواز شریف، مریم نواز اور دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف درخواستیں آمنہ ملک، منیر احمد اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئیں تھیں، جن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنی تقاریر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہدف تنقید بنایا ہوا ہے۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ پیمرا نے مذکورہ تقاریر کے نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی اور اس کی خاموشی کے باعث نفرت انگیز تقاریر اور بیانات نشر ہوئے جبکہ ادارہ قانون اور ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ: وزیر اعظم کو عدلیہ مخالف تقریر پر نوٹس جاری

پٹیشنز میں کہا گیا تھا کہ پیمرا ایک ریگولیٹر کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا اور وہ حکومت کے ذیلی ادارے کے طور پر کام کررہا ہے۔

درخواست گزاروں نے زور دیا تھا کہ پیمرا حکام کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ملازم نہیں ہیں اور انہیں ہر صورت میں پاکستانی شہریوں اور ملک کے اداروں کا تحفظ کرنا تھا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ پیمرا کو ہدایت کی جائے کہ وہ میڈیا کو ریاست کے اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کا غیر قانونی مواد اور تنقید کو نشر نہ کرنے کا پابند کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں