جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں سرکاری اراضی پر قبضے کے کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ‎زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ سندھ میں ہزاروں کی تعداد میں الاٹمنٹ کی گئیں، ‎کیا ہم بتائیں گے کہ الائمنٹ کیسے کرنی ہے، ‎سندھ حکومت کیا کررہی ہے اور ہم سے کیا کروانا چاہتی ہے، ‎آپ کے سرکاری افسران کے پاس اتنا مال کہاں سے آرہا ہے؟

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں پارکس اور کھیل کے میدانوں پر قبضے اور سیاسی دفاتر گرانے کے معاملے سے متعلق سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی درخواست اور دیگر شہروں میں زمینوں پر قبضے کے کیسز پر سماعت ہوئی۔

سپریم کورٹ نے کراچی کے تمام پارکس اور کھیل کے میدانوں سے تجاوزات، سیاسی دفاتر مسمار کرنے جبکہ کشمیر روڈ سے شادی ہالز سمیت تمام غیر قانونی تعمیرات فوری گرانے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو حکم دیا کہ سوئمنگ پول، اسکواش، ٹینس کورٹس اور اسکیٹنگ رنگ کے سوا تمام تعمیرات مسمار کردیں۔

مزید پڑھیں: قبضہ مافیا کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیے: ڈاکٹر فاروق ستار

اس کے علاوہ شاہراہ قائدین کے اختتام پر کھیل کا میدان فوری و اگزار کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ وہ چائنا گراؤنڈ تھا ہم کرکٹ کھیلتے تھے وہاں، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ فٹبال گراؤنڈ تھا اب یہاں پختہ عمارتیں قائم ہیں، جو فوری گرادی جائیں۔

جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا کہ پی ای سی ایچ ایس میں نوخیز گراؤنڈ میں اب بھی سیاسی جماعتوں کے دفاتر موجود ہیں، انہیں مسمار کردیا جائے اور شہر بھر کے پارکس اور کھیل کے میدان اصل شکل میں بحال کی جائیں۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ رفاعی پلاٹوں پر غیرقانونی تعمیرات برداشت نہیں کرسکتے۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں ‎سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ شہر کا بیڑہ غرق کردیا، شاہراہ فیصل پر کون بڑی بڑی دیواریں بنا رہا ہے؟ کیا ‎کوئی اس شہر کا وارث ہے؟ کیا کوئی پوچھنے والا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: حکومتِ سندھ زمینوں سے غیرقانونی قبضہ ختم کروائے: سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ‎بتائیں کون ہے اس شہر کا وارث؟

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ‎پورا پاکستان ہم پر ہنستا ہے کہ یہ ہے آپ کا کراچی، ‎ریونیو میں آج بھی بڑے بڑے ڈاکو بیٹھے ہیں، ‎اگر سرکاری اراضی سے پابندی اٹھائی تو آپ کے افسران جشن منائیں گے، ‎پھر حصہ بندیاں ہوں گی کہ کس کو کیا ملے گا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ‎آپ کے سرکاری افسران چارٹرڈ طیارے پر لندن میں بچوں کی شادیاں کرا رہے ہیں، ‎ایڈووکیٹ جنرل صاحب کیا آپ کو نہیں معلوم کہ کس کس نے لندن میں چارٹرڈ طیارے بک کرائے؟

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ‎زمینی حقائق بناتے ہیں کہ آپ نے ہزاروں کی تعداد میں الاٹمنٹ کیں، ‎کیا ہم بتائیں گے کہ الائمنٹ کیسے کرنی ہے، ‎سندھ حکومت کر کیا رہی ہے اور ہم سے کیا کروانا چاہتی ہے، ‎آپ کے سرکاری افسران کے پاس اتنا مال کہاں سے آرہا ہے؟ ‎کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس افسر کی بات کر رہے ہیں؟

مزید پڑھیں: ’کراچی سرکلرریلوے پر اب کوئی اختلاف نہیں رہا‘

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‎بتائیں ان افسران کے خلاف کیا کارروائی کی، ‎بچوں کی 2، 2 چارٹرڈ طیارے میں شادیاں، کچھ تو بتائیں کہاں سے مال آتا ہے، ‎آپ کا ہر بڑا سرکاری افسر علاقے کا بادشاہ ہے، ‎معلوم ہے کہ آپ کے افسر کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ‎آپ ہی ان افسران کے دفاع میں یہاں کھڑے ہوں گے۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ‎آپ ہم سے کیا کرانا چاہتے ہیں، ‎ہم یہاں سے بیٹھ کر حکومت نہیں چلانا چاہتے، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ‎پھر کہا جاتا ہے کہ دوکان کھول کر بیٹھے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ایسے مالز کسی کام کے نہیں جہاں ہماری مصنوعات نہ ہوں، اب تو ہمارے مزدور بھی بے روزگار ہو رہے ہیں، اب چینی ملازم یہاں کام کر رہے ہیں، کیا آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مئیر کراچی، وزیراعلی سندھ کو کہیں کہ بیٹھیں اور دیکھیں کیا ہو رہا ہے، ہم آپ کو سہولیات دینا چاہیے ہیں مگر آپ کچھ کرنا نہیں چاہتے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی ٹریفک جام، وجوہات جاننے کیلئے سروے کا حکم

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک ماہ میں ریونیو کا مکمل کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ سیل شدہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ بتایا جائے کہ ریونیو کا کیا ایس او پی بنایا گیا، کس افسر کے خلاف شکایت پر کیسے کارروائی کرتے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ‎ائیر پورٹ سے باہر آتے ہی دل دکھتا ہے، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ‎یہ ہے آپ کی گڈ گورننس؟

جسٹس گلزار احمد نے مزید ریمارکس دیئے کہ شاہراہ فیصل پر جگہ جگہ دیواریں کس لیے بنا رہے ہیں؟ اور یہ بھی ‎بتائیں جگہ جگہ مالز کس کے لیے بنا رہے ہیں؟ ‎کیا آپ کو اجازت دے دیں کہ پورا سندھ بینچ دیں؟

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ‎پاکستان خود ایک پلاٹ ہے، جسے کسی نے کسی کو بیچ دیا، پورے ملک میں ہم کراچی کی وجہ سے شرمندہ ہوتے ہیں، ‎سمجھ نہیں آتا کہ اس شہر کا سٹی منیجر کون ہے۔

مزید پڑھیں: 'کراچی میں ٹریفک جام کی وجہ ترقیاتی کام'

جسٹس گلزار نے مزید کہا کہ ‎ریلوے کے ساتھ ساتھ سب قبضے ہو چکے، ‎کون کر رہا ہے قبضے؟ کیا آپ کو نظر نہیں آتا؟ ‎آپ کو اجازت دے دیتے ہیں کہ پورا سندھ فروخت کردیں۔

جسٹس گلزار احمد کہا کہ ‎ہمارا کام آئینی معاملات دیکھنا ہے مگر ان کاموں میں الجھا رکھا ہے۔

بعد ازاں کوٹری میں 648 ایکڑ سرکاری اراضی سے انکروچمنٹ ہٹانے کے معاملے پر سماعت کے دوران سرکاری اراضی خالی نہ کرانے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 648 ایکڑ اراضی فوری خالی کرانے کا حکم دیا۔

اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر کوٹری عدالت میں پیش ہوئے تھے، عدالت نے انہیں حکم دیا کہ بلا امتیاز سب کے خلاف کارروائی کریں، اور ساتھ ہی تنبیہ کی کہ اگر کسی بے ضابطگی میں پائے گئے تو یاد رکھیں، بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔

ایڈووکیٹ سندھ جنرل ضمیر گھمرو نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ایک ماہ میں تمام قبضہ ختم کرا لیا جائے گا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قبضے میں کون کون ملوث ہے سب کے خلاف کارروائی کریں اور انکروچمنٹ کے خلاف کارروائی کل صبح سے شروع کی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں