ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے 1971 کی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے 56 فیصد کوٹہ مختص کیے جانے پر ملک کی اہم جامعہ میں جاری احتجاج کے دوران تصادم میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے، جس کے بعد ہزاروں طلباء نے دھرنا دے دیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ مخصوص گروہوں کو مختص کوٹے کے تحت سرکاری نوکریاں دیئے جانے کے خلاف احتجاج کررہے تھے جن پر پولیس نے ربر کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

وزیر اعظم حسینہ واجد کے ایک عشرے پر محیط اقتدار میں یہ اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہے جس کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت کوٹہ نظام پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہوگئی ہے۔

اتوار کو شروع ہونے والے مظاہرے پیر کی صبح بھی جاری رہے جس کے باعث کلاسسز معطل کردی گئیں اور ہزاروں طلباء نے مرکزی چوک پر جمع ہو کر اصلاحات کے لیے نعرے لگائے۔

یہ پڑھیں: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو 5 سال قید کی سزا

پولیس اورمیڈیا ذرائع کے مطابق احتجاج کا دائرہ چٹاگانگ،کُھلنا،راج شاہی،بریسل،رنگ پور،سلہٹ اورسوار کی سرکاری جامعات تک پھیل گیا اور کلاسس کا بائیکاٹ کر کے دھرنے دیے گئے

سوار کی جہانگیر نگر یونیورسٹی میں ہونے والے احتجاج میں ہزار سے زائد طلبہ نے شرکت کی، جو پرتشدد احتجاج کی شکل اختیار کرگیا اور پولیس کے ساتھ تصادم میں 30 سے زائد طلبہ زخمی ہوگئے، سوار کے انعام میڈیکل کالج ہسپتال کے ترجمان زاہد الرحمٰن کے مطابق اب بھی 15 زخمی طلبہ زیر علاج ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے 1971 کی جنگ میں شریک فوجیوں کے اہل خانہ اور پسماندہ اقلیتوں کے لیے سرکاری نوکریوں کا 56 فیصد کوٹہ مختص کیے جانے کے فیصلے پر طلبہ میں غم و غصہ پایا جاتا ہے جبکہ دیگر 44 فیصد نوکریاں کیلئے جامعات سے فارغ طلبہ مقابلے کا سامنا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش : اپوزیشن رہنما سے متعلق عدالتی فیصلے سے قبل احتجاج پر پابندی

ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔

شعبہ انگریزی کے سابق طالب علم، 22 سالہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ مطالبات منظور ہونے تک ہم اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے، ہم گولیوں سے خوفزدہ نہیں، یہ ہمارے حق کا معاملہ ہے۔

ایک اور طالب علم سائمن رحمان کا کہنا تھا کہ کوٹہ نظام کا مطلب ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے نوجوان نوکریوں سے محروم رہ جائیں گے، ’ہم چاہتے ہیں کہ میرٹ کی بنیاد پر سب کو یکساں مواقع ملیں‘۔

رات گئے ہونے والی کشیدگی میں طلبہ نے فرنیچر اور بانس کے ڈنڈوں کو آگ لگادی لیکن اس کے بعد کسی تازہ تصادم کی اطلاع نہیں جبکہ سیکڑوں پولیس اہلکاروں نے کیمپس کے داخلی راستوں پر گشت کیا۔

احتجاج کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہم پرامن احتجاج کررہے تھے، جب پولیس نے مرکزی چوک خالی کرانے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے، ربر کی گولیاں چلائیں اور لاٹھی چارج کے ساتھ واٹر کینن کا بھی استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: جیل میں موجود خالدہ ضیا کی صحت تشویش ناک ہے، ڈاکٹرز

کیمپس میں پرتشدد واقعات کے پھیلتے ہی ہزاروں طلبہ و طالبات کی پولیس آفیسرز سے جھرپیں بھی ہوئیں۔

پولیس انسپکٹر باچو میاں کے مطابق پُرتشدد احتجاج میں 100 زائد افراد زخمی ہوئے جن کا علاج ہسپتال میں جاری ہے تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

سینئر پولیس آفیسر عظیم الحق کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے پتھر برسائے، ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور دو گاڑیوں کو بھی نظرِآتش کیا جب کہ شعبہ فائن آرٹس کو بھی نقصان پہنچایا گیا، پولیس ذرائع کے مطابق 15 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔


یہ خبر 10 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں