کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی مودیز کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی حکومت کی ٹیکس سے استثنیٰ اسکیم کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے خزانے پر پڑنے والے بیرونی اور مالی دباؤ کو کم کیا جاسکے گا، جو کالے دھن کو سفید بنانے کی سرکاری اسکیم ’ٹیکس اصلاحات پیکج‘ کا حصہ ہے۔

عالمی ادارے نے نشاندہی کی کہ پاکستانی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی کامیابی سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا جب کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) کے اخراجات سے پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی، اس کے علاوہ بیرون ملک اثاثے ظاہر کرکے وطن لائی جانے والی رقم سے، رواں مالی سال کے گزشتہ کچھ مہینوں میں ادائیگیوں کے توازن پر پڑنے والے دباؤ کم کیا جاسکتا ہے، جو جون 2018 کو ختم ہورہا ہے۔

واضح رہے یہ پاکستان کی پہلی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا ٹیکس نادہندگان کیلئے ’ایمنسٹی اسکیم‘ کا اعلان

حکومت کی جانب سے لگائے جانے والے حالیہ اندازے کے مطابق ماضی میں چھپائے گئے اثاثوں تک ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کر کے پاکستان کے مالی بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ 20 کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف 12 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں جس میں سے صرف 7 لاکھ افراد انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں محصولات کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی، پڑوسی ممالک اور ایشیا پیسیفک کے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے ٹیکس ایمنسٹی آرڈیننس پر دستخط کردیئے

پاکستان میں محصولات سے حاصل شدہ آمدنی کی ابتر صورتحال کے سبب گزشتہ 25 برس میں کوئی خاص مالی فائدہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

خیال کیا جارہا ہے کہ کامیاب ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کی آمدنی کا بہتر دور شروع ہوگا، بیرون ملک اثاثوں پر کم سے کم عائد کردہ ٹیکس سے اس اسکیم کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستانی ٹیکس اسکیم 2016-17 انڈونیشی ٹیکس اسکیم کی طرز پر بنائی گئی ہے جس کے تحت بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے پر 4 فیصد اور وہ اثاثے واپس ملک میں منتقل کرنے پر صرف 2 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ایمنسٹی اسکیم: انکم ٹیکس میں رعایت سے 90 ارب روپے کا نقصان متوقع

یہ ٹیکس اسکیم موجودہ مالی سال کے اختتام کے ساتھ ہی جون 2018 میں ختم ہوجائے گی۔

یاد رہے کہ سی پیک کی مد میں کی جانے والی درآمدات کے سبب پاکستانی خزانے اور زر مبادلہ کے ذخائر پر خاصہ بوجھ پڑ رہا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق دسمبر 2017 سے اب تک روپے کی قدر 9 فیصد تک گھٹ چکی ہے۔


یہ خبر 13 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں