اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپویشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ انتخابی عمل میں جاری بے قاعدگیوں سے عام انتخابات کی قانونی حیثیت پر کئی سوالات اٹھ سکتے ہیں جن کی بنیاد پر ای سی پی کو عدالت میں بھی چینلج کرنا مشکل نہیں۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے چیمبر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی توجہ الیکشن ایکٹ 2017 کے 2 سیکشن کی جانب دلائی جن کے تحت ای سی پی ‘انتخابات سے 4 ماہ قبل مربوط حکمت عملی‘ تیار کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

یہ پڑھیں: سپریم کورٹ: سینئر وکیل نے نیب کے ادارے کو بے لگام قرار دے دیا

سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ سیکشن 22 کے مطابق ای سی پی انتخابات کی تاریخ سے 120 دن پہلے تمام نئے حلقوں کو مطلع کرنے کا مجاز ہے جبکہ الیکشن کمیشن کو 4 مئی تک آگاہ کردینا چاہیے بصورت دیگر اس سے یہ تاثر ملے گا کہ انتخابات ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہوں گے۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب قومی اسمبلی اپنی مدت یکم جون کو مکمل کرلے گی اور آئین کے مطابق انتخابات 60 دن کے دن اندر ہونے چاہیے جبکہ حکومت پہلے آگاہ کرچکی ہے کہ الیکشن جولائی اور اگست کے پہلے ہفتے میں آئین کی اصل روح کے ساتھ منعقد ہوں گے۔

انہوں نے ای سی پی کو تجویز دی کہ وہ سیکشن 14 اور 22 کی روشنی میں اپنی حیثیت واضح کرے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق تنازعات کو خطرہ قرار دے دیا

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ان بے قاعدگیوں کا علم نہیں تاہم وہ چیف الیکشن کمشنر سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔

اس حوالے سے انہوں نے عندیہ دیا کہ قومی اسمبلی کے سیشن میں ترمیم پیش کی جا سکتی ہے تاکہ بے قاعدگیوں کا خاتمہ ہو سکے۔

اس امر پر رائے کے لیے ای سی پی سے رابطے کی متعدد کوششیں کی گئی لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

دوسری جانب قانونی ماہرین کو یقین ہے کہ اگر کوئی قانون، آئین سے متصادم ہو تو آئینی شق کو اہمیت حاصل ہوگی اس لیے آئین کہتا ہے کہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد 60 یوم میں انتخابات کرائیں جائیں تو الیکشن کمیشن آئینی تقاضے کو پورا کرنے کا پابند ہے۔

مزید پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں:وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی نشستوں میں اضافہ

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 14 واضح کہتا ہے کہ ‘الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ سے کم از کم 4 مہینے پہلے انتخابات سے متعلق مربوط پلان وضع کرنے کا پابند ہے جس میں قانونی اور اتنظامی امور کے انجام دہدی کے معاملات تفصیل سے درج ہوں‘۔

اسی ایکٹ کا سیکشن 22 کمیشن کو یہ اختیار تفویض کرتا ہے کہ وہ حلقہ بندیوں کی فہرست میں اضافہ یا ترمیم کا حق رکھتا ہے اور حلقہ بندیوں سے متعلق مرتب ہونے والی حتمی فہرست کو سب سیکشن 4 کے تحت شائع کرنے کا پابند ہے‘۔


یہ خبر 20 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں