واشنگٹن: امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کابل میں ووٹر رجسٹریشن سینٹر پر حملہ کرنے والے گروہ، داعش کے افغانستان سے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔

واضح رہے کہ اس حملے میں 57 افراد ہلاک اور 119 زخمی ہوگئے تھے۔

امریکا کے قائم مقام سیکریٹری آف اسٹیٹ جون ایس سلیوان کا کہنا تھا کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں افغان حکومت اور وہاں کی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، امریکا اپنے افغان اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ افغانستان میں داعش کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے جس نے خوفناک حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں داعش کا سربراہ مارا گیا: اشرف غنی کا دعویٰ

خیال رہے کہ خطے میں داعش خراساں کے نام سے جانا جانے والا گروہ افغانستان اور پاکستان میں سرگرم ہے۔

امریکا نے داعش خراساں کو 29 ستمبر 2015 کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا تاہم پاکستان کی توجہ مذکورہ گروہ پر زیادہ ہے کیونکہ اس تنظیم کے زیادہ تر دہشت گرد پاکستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور تحریک طالبان پاکستان بھی ان سے منسلک ہے۔

اتوار کے روز ہونے والے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ ’اپنے جمہوری حقوق پر عمل پیرا معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں نے اپنے ظالمانہ اور غیر انسانی رویے کا مظاہرہ کیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے دہشت گرد گروپوں کی فہرست پاکستان کو فراہم کردی

گزشتہ سال افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کی قیادت کرنے والے جنرل جون نکولسن نے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کو بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی نے داعش خراساں کے لیے اپنے اہم جنگجو فراہم کیے ہیں۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی سے تعلق رکھنے والے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے بڑی تعداد میں داعش خراساں میں شمولیت اختیار کرلی۔

تقریباً یہ تمام دہشت گرد پاکستان کو اپنا مرکزی دشمن تصور کرتے ہیں اور انہوں نے پاکستان میں بچوں کے اسکول سمیت درجنوں حملے کیے ہیں، جن میں کئی سو شہری ہلاک ہوئے تھے۔

داعش خراساں نے اپنے بیسز افغانستان میں بنا رکھے ہیں اور اسلام آباد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ بھارت اور افغانستان، دونوں ممالک سے پاکستان میں حملوں کے لیے مدد حاصل کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی فوجی امداد سے القاعدہ اور داعش کو شکست دینے میں مدد ملے گی، امریکا

سینیٹ کے پینل کے سامنے اپنے بیان میں جنرل نکولسن نے اعتراف کیا تھا کہ داعش خراساں میں موجود سابق ٹی ٹی پی کے اراکین پاکستانی ریاست کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے والی تنظیم داعش خراساں کو امریکا نے ان کے افغانستان میں مفاد میں بڑا خطرہ تصور نہیں کیا گیا تھا تاہم دہشت گرد تنظیم کی اچانک بڑھتی ہوئی سرگرمیوں، بالخصوص افغان حکومت پر ہونے والے حملوں کے پیش نظر واشنگٹن داعش خراساں کے خاتمے کے لیے فکر مند ہوگئی ہے۔

یاد رہے کہ داعش خراساں کا قیام 2014 کے اوائل میں التوحید بریگیڈ اور انصار الخلافت والجہاد سے علیحدگی اختیار کرنے والوں نے کیا تھا۔

تاہم 2015 میں ٹی ٹی پی اور جند اللہ چھوڑنے والے ہزاروں افراد نے بھی اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی، 2015 میں ہی ملا عمر کی موت کے اعلان کے بعد یہ علیحدگیاں عمل میں آئی تھیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 24 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں