جنوبی کوریا: جوہری تنازع ختم کرنے کیلئے اُن کی اِن سے تاریخی ملاقات

27 اپريل 2018
جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن (دائیں) اور شمالی کوریا کے لیڈر کِم جونگ اُن (بائیں) ڈیمارکیشن لائن پر مصافحہ کر رہے ہیں — فوٹو، اے پی
جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن (دائیں) اور شمالی کوریا کے لیڈر کِم جونگ اُن (بائیں) ڈیمارکیشن لائن پر مصافحہ کر رہے ہیں — فوٹو، اے پی
جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن (دائیں) اور شمالی کوریا کے لیڈر کِم جونگ اُن (بائیں) ڈیمارکیشن لائن پر جنوبی کوریا میں داخل ہورہے ہیں — فوٹو، اے ایف پی
جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن (دائیں) اور شمالی کوریا کے لیڈر کِم جونگ اُن (بائیں) ڈیمارکیشن لائن پر جنوبی کوریا میں داخل ہورہے ہیں — فوٹو، اے ایف پی

جزیرہ نما کوریا میں طویل مدتی سیاسی تنازع میں برف پگھلنے لگی اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن ڈیمارکیشن لائن عبور کرکے پہلی مرتبہ جنوبی کوریا پہنچے جہاں وہ شمالی-جنوبی کوریا سربراہی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

خیال رہے کہ 1953 میں ختم ہونے والی کوریا کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ شمالی کوریا کے کسی حکمران نے ڈیمارکیشن لائن عبور کرکے جنوبی کوریا میں داخل ہوئے، تاہم پوری دنیا میں کم جونگ اُن کے اس دورے کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔

جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن کا ڈیمارکیشن لائن پر استقبال کیا اور دونوں رہنماؤں نے گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کیا۔

جنوبی کوریا کے صدر نے شمالی کوریا کے لیڈر کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی دعوت دی جس کے ساتھ ہی کم جونگ اُن جنوبی کوریا میں داخل ہوئے اور فوراً جنوبی کوریا کے صدر کو شمالی کوریا میں داخل ہونے کی دعوت دی جسے مو جے اِن نے قبول کرتے ہوئے شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔

بعدِ ازاں دونوں ممالک ایک ساتھ جنوبی کوریا میں داخل ہوئے جہاں ان کا روایتی انداز میں استقبال کیا گیا۔

دونوں رہنماؤں نے کوریا جنگ کی یاد میں علامتی شجرکاری میں حصہ لیا جس کے لیے دونوں ممالک سے حاصل کی گئی مٹی اور دونوں ممالک کے دریاؤں کا پانی استعمال کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’ایٹمی ریاست‘ بننے پر شمالی کوریا میں جشن

بعدازاں بند کمرے میں ہونے والے مذاکرات میں دونوں ممالک اپنے وفود کے ہمراہ شریک ہوئے اور مشترکہ طور پر جذیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔

یاد رہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں آنے والی بہتری رواں سال جنوبی کوریا میں ہونے والے سرمائی اولمپکس 2018 کے بعد سے دیکھی گئی ہے جس میں شمالی کوریا نے اپنے اولمپک دستے کو بھیجنے کی اجازت دی تھی۔

اس سے قبل شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے باعث شدید سرد مہری قائم تھی اور ایک موقع پر ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: شمالی کوریا کااولمپک کے لیے اپنی ٹیم جنوبی کوریا بھیجنے کا اعلان

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جنوبی کوریا کے موجودہ صدر مون جائے اِن کا تعلق شمالی کوریا سے ہی ہے اور وہاں ان کا آبائی گھر موجود ہے، جبکہ ان کے عزیز و اقارب اب بھی شمالی کوریا میں مقیم ہیں۔

حالیہ مذاکرات کو چین کی جانب سے نہایت خوش آئند اقدام قرار دیا گیا جبکہ امریکا نے بھی اسے مثبت پیش رفت قرار دیا۔

ادھر دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات کے بعد ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں تیزی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

جنوبی اور شمالی کوریا کے تعلقات

1953 کی کوریا کی جنگ کے بعد سرد جنگ کے دوران بننے والے ماحول میں شمالی کوریا کمیونزم کے تحت سوویت یونین جبکہ جنوبی کوریا سرمایہ دارانہ نظام کے تحت امریکا کے کیمپ میں آگئے تھے۔

سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے ٹکڑے ہوجانے کے بعد بھی شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے تعلقات میں بہتری نہیں آئی۔

تاہم 2016 میں شمالی کوریا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے، البتہ رواں برس ہونے والے مذاکرات میں شمالی کوریا نے نہ صرف سرمائی اولمپکس 2018 میں اپنی ٹیم بھیجنے کا اعلان کیا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان قائم ملٹری ہاٹ لائن کو بھی بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

خیال رہے کہ 2016 میں منتخب ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شمالی کوریا کے صدر کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر لفظی جنگ کا سلسلہ بھی جاری رہا، تاہم قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شمالی کوریا اور امریکا کے صدور کی بھی ملاقات متوقع ہے۔

جبکہ امریکا کا اتحادی ہونے کے سبب شمالی کوریا کی جانب سے جنوبی کوریا کو دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں