اسلام آباد: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد مختلف ٹیکسوں اور ان کے عالمی اور علاقائی سطح پر موازنے کی تفصیلی رپورٹ ایک ہفتے میں جمع کرائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ جب بھی عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں سیلز ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر جب عوام کو ریلیف دینے کی باری آتی تو ٹیکس لگ جاتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر کس قسم کے ٹیکسز کا اطلاق ہوتا ہے؟ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی کیا قیمتیں ہیں؟ یہاں پر پیٹرولیم مصنوعات کی کیا قیمتیں ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہمارے ہاں خطے کے دیگر ممالک سے کم ہیں۔

چیف جسٹس ے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سے قیمتوں کا موازنہ نہ کریں، کیا بھارت کے ساتھ ہمارا آئی ٹی میں کوئی مقابلہ ہے؟ آپ اپنے ٹیکسز سے متعلق ہمیں بتائیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات پر تین طرح کے ٹیکسز عائد ہیں، کسٹم ڈیوٹی، پیٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سیلز ٹیکس کتنا وصول کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت گزشتہ تین برس کی بلند ترین سطح پر

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 11 اعشاریہ 4 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے پوچھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر کیا کوئی مارجن بھی ہے؟

اے اے جی نے جواب دیا کہ دو طرح کے مارجن ہے، آئل کمپنی مارکیٹنگ مارجن اور پیٹرول پمپ ڈیلرز مارجن ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمت 100 ڈالر سے کم ہوکر 50 ڈالر ہوتی ہے پھر بھی آپ کی قیمت کم نہیں ہوتی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم خام تیل پر پراسنگ نہیں کرتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کرائیں گے۔

عدالت نے متعلقہ وزارت اور ادارے سے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسز کے حوالے سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں