اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ کمیٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کی سربراہی میں قائم کی گئی اور اسے ہدایت دی گئی کہ وہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں جمع کرائے۔

خیال رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو حکم دیا گیا تھا کہ اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملد رآمد سے متعلق ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم

سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا تھا کہ 1990 میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے سیاستدانوں اور دیگر میں 14 کروڑ روپے تقسیم کرنے کی تحقیقات کی جائے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس میں سابق ڈائریکٹر جنرل غالب بندیشہ، ڈاکٹر عثمان انور، قدرت اللہ مروت اور نجف مرزا شامل تھے۔

اس تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اصغر خان کیس کے فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد 2013 کے اختتام پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔

اپنی تحقیقات کے دوران 2015 تک ایف آئی اے کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ایئرمارشل (ر) اصغر خان، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی، مہران بینک کے مالک یونس حبیب، ایڈووکیٹ یوسف میمن اور معروف صحافی الطاف حسین قریشی کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ 8 نومبر 2012 کو سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے تفصیلی فیصلے میں حکم دیا گیا تھا کہ ایف آئی اے ایسے سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے، جنہوں نے مبینہ طور پر 1990 کے عام انتخابات کی مہم کے لیے فنڈز لیے تھی، تاکہ وہ پیپلز پارٹی کی متوقع فتح کو روک سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: اصغر خان کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کیس میں کافی ثبوث جمع کیے گئے، لہٰذا ایف آئی اے فنڈز وصول کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کے لیے کیسز کی تیاری کرے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں