کراچی: نقیب اللہ قتل کیس میں مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کردیا گیا۔

شہر قائد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی بند کمرے میں سماعت ہوئی، اس دوران تفتیشی افسرنے سی سی ٹی فوٹیج پرمشتمل سی ڈی اور دیگرشواہد عدالت میں پیش کیے۔

سماعت کے آغاز سے قبل مقدمے کے مدعی کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ ان کیمرا سماعت سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے، یہ اوپن ٹرائل کھلی عدالت میں چلنا ہے اور ان کیمرا سماعت غیر قانونی ہے۔

سماعت کے دوران مقدمے کے سرکاری وکیل علی رضا پیش نہیں ہوئے، تاہم مقدمے کے ملزم ڈی ایس پی قمر احمد نے درخواست ضمانت دائر کی، جس پر عدالت نے نوٹس جاری کیا، جسے عدالت میں موجود دیگر وکلاء نے لینے سے انکار کردیا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: پولیس کی جانب سے نامزد گواہ منحرف ہوگیا

سرکاری وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ علی رضا اس کیس کو دیکھ رہے ہیں اور عدالتی نوٹس بھی وہی وصول کرسکتے ہیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اپنے پرانے ساتھیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا احوال پوچھا، جس پر راؤ انوار کی ٹیم کے ارکان نے جواب دیا کہ آج کل صرف حاضریاں بھگت رہے ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے راؤ انوار اور ان کے ساتھیوں کو مقدمے کی نقول فراہم کرتے ہوئے کیس کی سماعت 28 مئی تک ملتوی کردی۔

جیل حکام کی راؤ انوار پر خصوصی کرم نوازیاں

عدالت میں پیشی کے دوران جیل حکام نے راؤ انوار کو مخصوص اورنج جیکٹ سے استثنیٰ دیتے ہوئے بغیر ہتھکڑی کے عدالت میں پیش کیا۔

خیال رہے کہ جیل قوانین کے تحت زیر سماعت مقدمات کے ملزمان کو اورنج رنگ کی جیکٹ پہنانا ضروری ہوتا ہے اور عدالتی ریمانڈ پر لائے گئے ہر ملزم کو یہ جیکٹ پہنائی جاتی ہے۔

تاہم عدالت میں پیشی کے دوران نقیب اللہ کیس کے ڈی ایس پی قمر احمد سمیت دیگر ملزمان کو اورنج جیکٹ میں لایا گیا، تاہم مرکزی ملزم راؤ انوار کو اس سے استثنیٰ دی گئی۔

یہ بھی یاد رہے کہ کرپشن کے الزام میں گرفتار کئی اعلیٰ پولیس افسران کو بھی اورنج جیکٹ پہنا کر عدالت لایا جاتا ہے۔

نقیب اللہ قتل کیس

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم بعد ازاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھنے پر 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار اور دیگر کے خلاف عبوری چالان عدالت میں جمع

بعد ازاں چیف جسٹس کے حکم پر راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں ڈال دیا گیا تھا، جبکہ انہیں اسلام آباد سے سخت سیکیورٹی میں کراچی منتقل کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں انہیں پیش کیا گیا تھا، جہاں انہیں ایک ماہ کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

بعد ازاں 21 اپریل کو 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم راؤ انوار کو سینٹرل جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا، تاہم عدالتی احکامات کے برخلاف ملیر کینٹ میں راؤ انوار کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا تھا۔

تاہم گزشتہ سماعت کے دوران نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کی جانب سے پیش کردہ گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا اور اس نے بیان دیا تھا کہ اسے ڈرا دھمکا کر راؤ انوار کے خلاف بیان لیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں