پشاور: پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیمی کا بل منظور ہونے کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنان نے صوبائی اسمبلی کے سامنے شدید احتجاج کیا جنہیں پولیس نے لاٹھی چارج کے بعد منتشر کردیا۔

خیال رہے کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا سے انضمام کے حوالے سے پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے بل کی آج صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں توثیق کی جائے گی۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے خیبرپختونخوا اسمبلی جانے والی سڑک پر ٹائر جلائے اور اسے دھرنا دے کر بلاک کر دیا۔

اطلاعات کے مطابق جے یو آئی (ف) کے کارکنان صوبائی اسمبلی کے دروازوں کے قریب بھی دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اسمبلی کا داخلی راستہ مکمل طور پر بند ہوگیا۔

مزید پڑھیں: فاٹا کا انضمام خطے میں ترقی کا پہلا قدم ہے، زرداری

کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری سمیت واٹر کینن کو بھی طلب کرلیا گیا جو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے بالکل تیار تھی۔

اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ اور ہاتھاپائی ہوئی جبکہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، تاہم پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا جس میں جے یو آئی (ف) کے کارکنان زخمی بھی ہوئے جبکہ کارکنان وہاں سے منشتر ہوگئے۔

جے یو آئی (ف) کے مشتعل کارکنان نے ڈان نیوز کی گاڑی پر بھی حملہ کیا جس سے گاڑی کے شیشے ٹوٹ گئے۔

ادھر امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر احتجاج جاری رہا تو صوبائی اسمبلی میں فاٹا انضمام کے بل کی توثیق کے لیے ہونے والا اجلاس تاخیر سے شروع کیا جائے گا۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے افغانستان کو تشویش

افغانستان نے فاٹا کے خیبر پختونخوا سے انضمام پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا اور زور دیا کہ اس معاملے کو مقامی افراد کی خواہش کے مطابق حل کیا جائے۔

افغانستان کی خاما نیوز ایجنسی کے مطابق افغان صدارتی محل سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغان حکومت نے سفارتی سطح پر پاکستان اور عالمی دنیا سے رابطہ کیا اور فاٹا انضمام بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ دو طرفہ مشاورت کے بغیر سیاسی اور عسکری طریقے سے خطے کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا تو یہ برطانوی راج اور افغانستان کے درمیان 1921 کو ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ 24 مئی کو فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کا بل حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔

قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کے حوالے سے ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ‘فاٹا کیلئے انضمام سے زیادہ ضروری یہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے’

قومی اسمبلی اجلاس میں فاٹا اصلاحات بل کی منظوری کے لیے رائے شماری کی گئی جس کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

ایک روز بعد سینیٹ میں بھی 31ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد کیا ہوگا؟

واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔

فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محاصل سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔

فاٹا بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشتیں 12 سے کم ہوکر 6 ہوجائیں گی، جبکہ خیبر پختونخواہ کا قومی اسمبلی میں موجودہ حصہ 39 سے بڑھ کر 45 نشستیں ہو جائے گا۔

سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔

اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔

بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے، اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے، اور فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔

فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں