کراچی: فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر غضنفر بلور نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے تشکیل کردہ دو ماہ پر مشتمل مالیاتی پالیسی میں سود کی شرح 6.5 فیصد رکھنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

غضنفر بلور نے واضح کیا کہ شرح سود میں اضافے سے مقامی صنعت کار اور برآمد کنندگان اپنے کاروباری مخالفین کے مقابلے زیادہ مشکلات کا شکار ہو جائیں گے جو اپنے اپنے ممالک میں کم شرح سود سے مسفتید ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا شرح سود 5.75 فیصد برقرار رکھنے کا فیصلہ

انہوں نے بتایا کہ ‘شرح سود میں اضافے سے سرمایہ کاروں کے رحجان میں کمی آئے گی خصوصاً پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کے تحت میگا پراجیکٹ کے انفراسٹرکچرمیں ان کی دلچسپی کم ہو جائے گی۔

غضنفربلور نے کہا کہ انڈسٹری اور سروسز میں بہتری اقتصادی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے جو گزشتہ برس میں تھوڑی مستحکم ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ رواں مالی سال کے آغاز میں مرکزی بینک نے 25 بیسس پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ شرح سود 6 فیصد تک کردی تھی۔

اس حوالے سے 26 مئی کو اسٹیٹ بینک نے امید کا اظہار کیا تھا کہ مالی سال 2018 میں اقتصادی ترقی عبوری طور پر گزشتہ 13 سال کی ریکارڈ سطح 5.8 فیصد پر رہنے کا امکان ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ افراطِ زر بھی امید کے مطابق سالانہ ہدف 6 فیصد سے کم رہنے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: اپنی بچت بینک میں رکھوانا کتنا فائدہ مند، کتنا نقصان دہ؟

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ شرح سود 6 فیصد سے بڑھ کر 6.5 فیصد ہونے سے معیشت پر دباؤ بڑھ جائے گا اور افراطِ زر میں اضافہ ہوگا۔

دوسری جانب آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے جنرل سیکریٹری انیس الحق نے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی اور ایکسچینج ریٹ کے گراف میں اضافہ ہو گا اور طویل المعیاد پالیسی کے تناظر میں سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈستری کی ایگزیکٹو ممبر قرۃ العین نے کہا کہ حکومت کی ادویات ساز کمپنیوں سے متعلق پالیسی کی وجہ سے انتہائی کم منافع پر کام کررہے ہیں اور شرح سود میں اضافے سے مزید دباؤ بڑھے گا’۔

یہ پڑھیں: کیا سیونگس اکاؤنٹ آپ کے لیے مفید ہیں؟

خیال رہے کہ ایس بی پی کے مطابق مالی سال 2018 میں مرکزی بینک کے ماڈل کے تحت افراطِ زر 3.5 فیصد سے 4.5 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، تاہم مالی سال 2019 میں 6 فیصد سے بھی زائد ہوسکتی ہے۔


یہ خبر 29 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں