کراچی میں ماورائے عدالت قتل کیے گئے نقیب اللہ محسود کے والد نے مرکزی ملزم سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے کے خلاف درخواست دائر کردی۔

سندھ ہائی کورٹ میں نقیب اللہ محسود کے والد کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینا غیر قانونی اور ناجائز ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت کی قانونی اتھارٹی کی کی جانب سے گزشتہ تاریخوں کے نوٹفکیشن جاری کرنا راؤ انوار کو رعایت دینا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے نقیب اللہ محسود کے والد کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست کو منظور کرلیا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد گرفتار

یاد رہے کہ گزشتہ روز انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو سب جیل منتقل کرنے کے خلاف اور ملزم کی جانب سے جیل میں بی کلاس کی فراہمی سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اس کے علاوہ نقیب اللہ محسود کے والد نے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) میں درخواست دائر کی تھی۔

انہوں نے یہ درخواست نیب میں خود جمع کرائی جبکہ اس کی ایک کاپی چیئرمین نیب کو بھی بھجوائی تھی۔

اس بارے میں ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نیب میں جمع کرائی گئی درخواست میں راؤ انوار کی عالی شان زندگی، اربوں روپے کے اثاثے اور گزشتہ کچھ برسوں میں 74 دبئی کے دوروں پر سوالات اٹھائے گئے تھے اور ان کی تحقیقات کی درخواست کی گئی تھی۔

چیئرمین نیب کو ارسال کی گئی اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ ایک افسر کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ ایک لاکھ 13 ہزار 772 روپے ہوتی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ وہ انتے دوروں کے اخراجات برداشت کرسکے، لہٰذا یہ واضح ہے کہ ان دوروں میں کسی اور ذرائع سے رقم استعمال کی گئی۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار آغاز سے انجام تک!

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

واضح رہے کہ 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN May 29, 2018 06:48pm
اگر دوبئی کے کچھ برسوں میں 74 دورے کیے گئے تو اس پر نیب یا عدالت کو خود ہی نوٹس لینا چاہیے؟