لاہور: چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق کابینہ کا اجلاس نہ بلانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس بلانے کے لیے آج شام تک مہلت دے دی۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل درآمد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران وفاقی حکومت کے وکیل اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر میمن بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اب تک کابینہ نے اصغر خان کیس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، جس پر حکومتی وکیل نے بتایا کہ کابینہ اجلاس بلانے کے لیے مہلت دی جائے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے اور حکومت کو کوئی فکر نہیں، آج ہی اس معاملے پر اجلاس بلایا جائے اور فیصلے سے آگاہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں: اصغر خان کیس: ایف آئی اے کا نواز شریف کو دوبارہ نہ طلب کرنے کا عندیہ

وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آج دوپہر میں کابینہ کا اجلاس بلایا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ کل تک کابینہ اجلاس کے فیصلے سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

عدالت میں سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ وہ اس معاملے میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے، بعد ازاں عدالت نے اصغر خان کیس کی سماعت یکم جون تک کے لیے ملتوی کردی۔

اصغر خان کیس میں اب تک کیا ہوا!

سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس 1996 میں دائر ہوا، مقدمے کی رو سے صدر غلام اسحٰق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990 کے انتخابات کے لیے الیکشن سیل بنایا، جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے ان کی معاونت کی۔

مقدمے میں کہا گیا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے ذریعے سیاستدانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے، جس سے عوام کو شفاف انتخابات اور حق رائے دہی سے محروم رکھ کر حلف کی رو گردانی کی گئی۔

بعد ازاں 16 سال بعد عدالت نے 2012 میں مذکورہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائر جرنیلوں اسلم بیگ، اسد درانی اور یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اور رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس ضمن میں تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی جبکہ اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، ایوان صدرمیں کوئی سیل ہے تو فوری بند کیاجائے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کیس میں کافی ثبوث جمع کیے گئے، لہٰذا ایف آئی اے فنڈز وصول کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کے لیے کیسز کی تیاری کرے۔

جس کے بعد سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس میں سابق ڈائریکٹر جنرل غالب بندیشہ، ڈاکٹر عثمان انور، قدرت اللہ مروت اور نجف مرزا شامل تھے۔

اس تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اصغر خان کیس کے فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد 2013 کے اختتام پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔

اپنی تحقیقات کے دوران 2015 تک ایف آئی اے کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ایئرمارشل (ر) اصغر خان، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی، مہران بینک کے مالک یونس حبیب، ایڈووکیٹ یوسف میمن اور معروف صحافی الطاف حسین قریشی کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم

اس ضمن میں فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں جورواں سال 6 مئی کومسترد کر دی گئیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ نے اصغر خان کیس نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت نے 6 سال قبل فیصلہ دیا تھا، اب تک فیصلے پر کیا عملدرآمد ہوا ہے؟

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ اس کیس میں نظرثانی کی درخواستیں خارج کی جاچکی ہیں اور اب عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے، چناچہ ایف آئی اے نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔

اس حوالے سے 10 مئی کو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے بتایا تھا کہ یہ کمیٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کی سربراہی میں قائم کی گئی اور اسے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے۔

تبصرے (0) بند ہیں