واشنگٹن: عالمی مالیاتی ادارے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ پاکستان صنفی مساوات کو فروغ دے کر ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں 30 فیصد بہتری لا سکتا ہے۔

وومن اکنامکس امپاورمنٹ کے عنوان سے شائع کردہ ایک رپورٹ میں پاکستان کی جانب سے سرکاری اسکولوں میں لڑکیوں کی انرولمنٹ بڑھانے کے لیے مشروط تعلیمی وظائف جیسی پالیسی خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعداد وشمار کی رو سے تدریسی مراکز میں لڑکیوں کی تعداد بڑھنے سے جبری مشقت کے رجحان میں کمی آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خصوصی رپورٹ: پاکستان میں خواتین کو کام کی جگہوں پر کیسے ہراساں کیا جاتا ہے

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے علاوہ اردن، گوئٹے مالا، مراکش اور نائجیرہ نے صنفی عدم مساوات اور لڑکیوں کی جبری مشقت کی حوصلہ شکنی کے لیے تدریسی مراکز میں ان کے لیے وظائف کی ادائیگی رکھی ہے۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان، مراکش اور نائجیرہ میں وراثتی حقوق اور ٹیکس کٹوتی یا مردوں کے لیے ٹیکس کریڈٹ جیسے عدم مساوات رویہ قائم ہے۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ بعض اداروں میں خواتین کو ملازمت سے روکنا اور انہیں صنفی عدم مساوات کے باعث محدود ملازمت دینے سے جبری مشقت میں اضافہ ہوتا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کینیڈا اور جاپان جیسے مملک بھی خواتین کو با صلاحیت بنا کر اپنے جی ڈی پی میں 4 فیصد اضافہ کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’جنسی ہراساں کرنا کسی طرح بھی درست نہیں‘

آئی ایم ایف محققین کے مطابق ‘تعلیم اور متنوع کی بدولت نئے خیالات جنم لیتے ہیں اور کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ تعلیم کے میدان میں صنفی عدم مساوات سے مجموعی ملکی پیداوار میں کمی آتی ہے’۔

علاوہ ازیں بتایا گیا کہ جن ممالک میں تدریس کے میدان میں صنفی عدم مساوات کا دائرہ وسیع ہے وہاں مجموی قومی پیداوار میں تقریباً 25 فیصد کمی اور لڑکیوں کی اسکولوں میں شرح اندارج 0.75 فیصد سے بھی کم ہے۔

آئی ایم ایف نے زور دیا کہ دیگر ماہرین کی جانب سے فراہم کردہ اعداو شمار کے مطابق تعلیم کے میدان میں صنفی عدم مساوات سے اقتصادی گراف میں 90 کی دہائی میں منفی رحجانات سامنے آئے تھے جبکہ اقتصادی دھارے میں خواتین کے کردار سے معشیت میں مثبت اشاریے ابھرتے ہیں اور مجموعی طور پر آمدنی کی تقسیم میں بہتر مساوات نظر آتی ہے۔


یہ خبر 2 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں