تہران: ایران نے نئے سینٹری فیوجز کی مدد سے یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ایک منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔

فرانس کے خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے حالیہ اعلان کے بعد یورپی سفارت کاروں کی کوششیں دباؤ کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں جو انہوں نے امریکا کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے شروع کی تھیں۔

ایرانی نیوز ایجنسی فارس کے مطابق ایران کے نائب صدر اور ایرانی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ علی اکبر صالحی کا کہنا تھا کہ اگر حالات نے اجازت دی تو ممکنہ طور پر ہم آئندہ روز ’نتانز‘ پلانٹ پر نئے سینٹری فیوجز کی پیداوار شروع کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران جوہری معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے: یو این واچ ڈاگ

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں وہ 2015 کے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ صرف پیداواری عمل کا آغاز ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سینٹری فیوجز بنانا شروع کررہے ہیں۔

اس حوالے سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے تصدیق کی کہ انہیں ایران کی جانب سے خط موصل ہوا ہے، جس کے بارے میں ایرانی نائب صدر نے بتایا تھا کہ پیر کو ایران کے منصوبے کے آغاز سے متعلق خط جمع کرایا ہے۔

واضح رہے کہ ایران اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے 2015 کے جوہری معاہدے کے مطابق ایران کو اس طرح کے سینٹری فیوجز بنانے اور ٹیسٹ کرنے کا اختیار حاصل ہے، تاہم مشینوں کی اقسام اور تعداد کے حوالے سے ابتدائی 10 سال کے عرصے تک کڑی پابندیاں عائد ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان

علی اکبر صالحی نے خاص طور اس بات پر زور دیا کہ یہ اقدامات اس امر کا اظہار نہیں کہ یورپ کے ساتھ جاری مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے میں یورپی ممالک بھی شامل تھے اور امریکا کی جانب سے مذکورہ معاہدے سے دستبرداری کے اعلان کے بعد سے یورپی ممالک معاہدہ برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کررہے تھے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ دستبرداری کے فیصلے کے ساتھ نومبر سے ایران میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران، عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدہ

جہاں برطانیہ، فرانس، چین، روس اور جرمنی معاہدہ برقرار رکھنے پر متفق ہیں وہیں ان ممالک کی کئی کمپنیوں نے ایران میں اپنا کام بند کرنا شروع کردیا ہے۔

اس بارے میں یورپی یونین کا کہنا تھا کہ ابتدائی اندازوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی جانب سے ان اقدامات کا اعلان جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں۔

یورپی یونین کی سفیر اور ترجمان فیڈریکا موگیرنی کا کہنا تھا کہ ان پیچیدہ حالات کے پیش نظر وہ ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر باہمی اعتماد سازی کے فروغ کی کوشش نہیں کریں گے۔


یہ خبر 6 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں