اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 54 ارب روپے کا قرضہ معاف کرانے والی 222 کمپنیوں سے ایک ہفتے میں تفصیلی جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے قرضہ معافی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قوم کے 54 ارب روپے کھانے کے باجود کمپنیاں تاحال کام کر رہی ہیں، انہوں نے پیسے بھی ہضم کرلیے لیکن لینڈ کروزر اور کاروبار چل رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’قرضہ معاف کرانے والوں کے اثاثے فروخت کرکے رقم وصول کریں گے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیں گے اور قرض نادہندگان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی۔

دوران سماعت فریقین کے وکلاء کی جانب سے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی، جس پر چیف جسٹس نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس اہم کیس کو ملتوی نہیں کرسکتا، روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت ہوگی۔

عدالت میں وکلاء کی جانب سے استدعا کی گئی کی سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ذریعے کمپنی کو نوٹسز دیئے جائیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک نوٹس کردیا ہے، اگر کوئی نہیں آتا تو اپنی ذمہ داری پر مت آئے، جو کمپنیاں نہیں آئیں گی ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی ہوگی۔

بعد ازاں عدالت نے 222 کمپنیوں سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 19 جون تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ سماعت میں عدالت نے تمام کمپنیوں کو عدالت میں پیشی کے لیے نوٹس جاری کیے تھے۔

یاد رہے کہ جسٹس (ر) جمشید کمیشن نے خلاف ضابطہ قرضے معاف کرانے والی 222 کمپنیوں کے خلاف مزید کارروائی کی سفارش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: قرضہ معافی کیس: سپریم کورٹ کا 222 کمپنیوں کو نوٹس جاری

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 222 کمپنیوں نے 18 اعشاریہ 717 ارب کا قرضہ لیا اور قرضے کی رقم کا 8 اعشاریہ 949 ارب روپے واپس کیے۔

رپورٹ کے مطابق 222 کمپنیوں کی جانب اس وقت 11 اعشاریہ 769 ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے، اس کے علاوہ ان کمپنیوں پر بینک سود کی مد میں 23 اعشاریہ 572 ارب روپے بھی واجب الادا ہیں۔

کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 620 قرضہ معافی کے مقدمات میں 84 ارب روپے معاف کیے گئے، 222 کمپنیوں کے 35 ارب روپے کے قرض سرکلر نمبر 2002/29 کے تحت معاف ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں