ہمارا ملک ویسے تو داخلی اور خارجی مسائل سے گھرا ہوا ہے مگر پاکستانی میڈیا ہائی پروفائل شخصیات کی ذاتی زندگیوں پر ہی مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی سوانح عمری کے مبینہ مسودے پر جاری شور و غل کو ہی دیکھ لیں۔ صفِ اول کے پی ٹی آئی رہنماؤں کے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ان کے باس ولیم کونگریو کے 1697 میں لکھے گئے ڈرامے 'دی مارننگ برائیڈ' کی ان سطور کی حقانیت دریافت کر چکے ہیں:

"محبت سے نفرت میں بدلنے والے غصے کا کوئی مقابلہ نہیں، اور توہین کی شکار ہونے والی عورت کے غیظ و غضب کا کوئی مقابلہ نہیں."

گزشتہ چند دنوں میں سوشل میڈیا ریحام خان اور ایک پی ٹی آئی حامی کے درمیان ای میل اور واٹس ایپ پر پیغامات کے تبادلوں سے بھرا پڑا ہوا جن کا اب کہنا ہے کہ کسی نے ان کے نام سے اکاؤنٹس بنائے ہیں۔ مجھے عمران خان کی سابقہ اہلیہ کے کچھ انٹرویوز کے لنکس اور مسودے کے چند صفحات بھی ملے ہیں۔ ریحام خان کا کہنا ہے کہ ان کی کتاب پر ابھی کام جاری ہے۔

تو اس سب سے فرق کیا پڑتا ہے؟ عموماً ایک رشتہ دو افراد کے درمیان ایک نجی معاملہ ہوتا ہے اور اس پر میڈیا میں گرما گرم بحثیں نہیں ہونی چاہیئں۔ مگر 24 گھنٹے ساتوں دن چلنے والے میڈیا کے دور میں جہاں ہر وقت ریٹنگز کی جنگ چھڑی ہوئی ہو، وہاں عمران خان اگر یہ سوچیں کہ پرائیویسی ان کا حق ہے، تو یہ بچکانہ امید ہوگی۔ کیوں کہ بہرحال یہ میڈیا کی ان کے ساتھ شدید وابستگی ہی ہے جس کی وجہ سے وہ وزارتِ عظمیٰ کو چھونے کے قریب ہیں۔

پڑھیے: ریحام خان نے اپنی کتاب کے مواد کے بارے میں خاموشی توڑ دی

پی ٹی آئی کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب انتخابات سے عین پہلے شائع ہوگی اور عمران خان کے لیے شرمندگی و ووٹوں میں کمی کا سبب بنے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ غلط ہیں کیوں کہ خواتین کے معاملے میں ان کی شہرت سے سب واقف ہیں اور اس سے ان کا تشخص اور ان کی مقبولیت صرف بہتر ہی ہوئی ہے۔ مگر پارٹی اور اس کے رہنما کے بارے میں کسی بھی تاریک پہلو کی تفصیلات پی ٹی آئی کے مخالفین کو انتخابی مہم کے دوران کافی مواد مل جائے گا۔

درحقیقت ایک مشہور قانونی فرم کی جانب سے ریحام خان کو ہتکِ عزت کے نوٹس بھیجنے کا شاید نقصان ہوا ہے۔ لندن میں جنگ گروپ کے رپورٹر مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق "قانونی پیچیدگیاں" ہتکِ عزت کے دعوے کو عدالت تک پہنچنے سے روک سکتی ہیں۔

مگر لیک ہوچکے لیگل نوٹس اور اس سے شروع ہونے والے میڈیا طوفان کا حوالہ دیتے ہوئے ریحام خان کے وکلاء یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہتکِ عزت کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس خود کا دفاع کرنے کے لیے معقول وقت موجود تھا۔ مرتضیٰ علی شاہ کے مطابق ہتکِ عزت کے دعوے کے مکمل اخراجات 15 لاکھ پاؤنڈز تک ہو سکتے ہیں۔

مگر ایک بار پھر، ہمیں اس غیر ضروری معاملے کی فکر کیوں ہونی چاہیے؟ اس کی سنسنی خیزی کے علاوہ کیا یہ معاملہ اتنی توجہ کا مستحق ہے جتنی کہ اسے مل رہی ہے؟ ایک مثالی دنیا میں تو ایسا نہیں ہوتا مگر دنیا بھر میں کسی بھی سابقہ جوڑے کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات شہہ سرخیوں کی زینت اور 24 گھنٹے ساتوں دن میڈیائی چہ مگوئیوں کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر نواز شریف اور آصف زرداری جیسے دوسرے سیاستدانوں کو بھی عدالت لے جایا اور میڈیا ٹرائل کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو عمران خان کی زندگی کی جانچ پڑتال کیوں نہیں کی جا سکتی؟ میں ان میں سے کسی بھی سیاست دان کا پرستار نہیں ہوں پر مجھے پسند ہو یا نہ ہو، میرے سامنے انتخاب کے لیے یہی لوگ موجود ہیں۔ ووٹ دینے سے پہلے میں ان سب کے بارے میں جتنا ہو سکے جاننا چاہوں گا۔ شریف اور زرداری، دونوں کی لاانتہا جانچ پڑتال ہو چکی ہے اور کبھی بھی غیر منصفانہ طور پر بھی۔ مگر کیوں کہ عمران خان کو اب بھی براہِ راست اقتدار میں آنا ہے، اس لیے وہ میڈیا کے حالیہ طوفان کا مرکز ہیں۔

ویڈیو دیکھیے: ریحام خان کی کتاب کی اشاعت سے قبل سیاست میں ہلچل

پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری نے ریحام خان کی خود نوشت کو 'پاکستان کی خاندانی اقدار' کے خلاف قرار دیا ہے۔ اچھا تو یہ اقدار کیا ہیں؟ کیا ان میں بیوی کا بحیثیت باورچی، آیا، ایک ایسی شخصیت جو خود کو بند کیے رکھتی ہیں اور کبھی بھی مڑ کر جواب نہیں دیتی کے طور پر کردار متعین ہے؟ اگر عمران خان کو ایسی ہی خاتون اپنی اہلیہ کے طور پر چاہیے تھیں تو یہ صاف ہے کہ انہوں نے غلط خاتون کا انتخاب کیا۔

ریحام خان ایک باہمت، ذہین اور خود مختار خاتون کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ کئی دیگر خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنے سابقہ شوہروں کے بارے میں غصے سے بھری کتابیں لکھی ہیں۔ تہمینہ درانی کی کتاب 'مائی فیوڈل لارڈ' غلام مصطفیٰ کھر سے ان کی شادی کے تلخ تجربات پر مبنی ہے۔ کھر ایک استحصالی شوہر کے طور پر سامنے آئے مگر ان کے بسا اوقات پرتشدد بھی ہوجانے والے رویے کی کھلی تشریح کے باوجود انہیں سماجی و سیاسی طور پر کوئی نقصان نہیں ہوا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تحکمانہ رویہ رکھنے والے مرد کی عزت کی جاتی ہے جبکہ بیوی سے عزت اور شفقت سے پیش آنے کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے قدامت پسند اور سماجی طور پر پسماندہ معاشروں میں شادی دو مساوی افراد کے درمیان رشتے کے طور پر نہیں دیکھی جاتی۔ چنانچہ اس طرح کے غیر مساوی تعلق میں خواتین سے اکثر امید کی جاتی ہے کہ وہ گھروں تک محدود رہ کر زندگی گزاریں اور راضی رہیں۔

پڑھیے: ریحام خان کی کتاب کی رونمائی کے خلاف حکم امتناع جاری

افسوس کی بات ہے کہ خواتین کو اس کردار میں بچپن سے ہی ڈھالا جاتا ہے، اور ہمیشہ بھائیوں کو ان پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اور جب ان کے والدین کی پسند کے مرد سے ان کی شادی ہوجاتی ہے تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ طلاق کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔

خوش قسمتی سے ریحام خان اس سب سے آگے بڑھ کر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہیں۔ میں ان کی کتاب پڑھنے کے لیے بے تاب ہوں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 9 جون 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں