کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس دینے کی منظوری دے دی۔

واضح رہے گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو آئندہ سماعت پر راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے سے متعلق تحریری جواب دینے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار نے ضمانت کیلئے درخواست دائر کردی

اس موقع پر نقیب اللہ محسود کے والد اور کیس کے مدعی محمد خان نے درخواست کی کہ راؤ انوار کے گھر کو سب جیل کی درخواست کالعدم قرار دی جائے۔

جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ درخواست ٹرائل کورٹ میں زیر غور ہے اسے ہائی کورٹ کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔

کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر رضوان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار اور دیگر کے خلاف عبوری چالان عدالت میں جمع

اس حوالے سے بتایا گیا کہ مدعی کے وکیل کی عدم حاضری پر نقیب قتل کے ملزمان کی جانب سے دائر ضمانت پر سماعت نہیں ہو سکی۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ جنوری میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں