نیند کی کمی یا زیادتی دونوں نقصان دہ

13 جون 2018
یہ بات جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

نیند کی کمی یا زیادتی دونوں جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ بات جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

سیئول نیشنل یونیورسٹی کالج آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بہت کم یا بہت زیادہ نیند بھی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں : نیند کی کمی سے ہونے والے 16 نقصانات

اس تحقیق کے دوران 1 لاکھ 33 ہزار سے زائد مردوں اور خواتین کے نیند کے اوقات کا جائزہ لیا گیا اور جاننے کی کوشش کی گئی کہ نیند کا دورانیہ صحت پر کس طرح اثرات مرتب کرتا ہے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جو لوگ 6 گھنٹے یا اس سے کم وقت سونے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں 8 گھنٹے تک سونے والے افراد کے مقابلے میں میٹابولک سینڈروم جیسے ہائی بلڈ شوگر، ہائی کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر اور کمر کے گرد چربی بڑھنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح توند نکلنے کا امکان بھی بڑھتا ہے۔

مگر جو لوگ 10 گھنٹے یا اس سے زائد دورانیے تک سوتے ہیں، وہ بھی صحت کے لیے فائدہ مند نہیں کیونکہ ایسے افراد میں بھی میٹابولک سینڈروم کا خطرہ بڑھتا ہے، خصوصاً خواتین کی توند نکلنے کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : 6 گھنٹے سے کم نیند کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟

محققین کے مطابق فی الحال یہ نتائج تجزیاتی ہیں اور یقین سے کہنا مشکل ہے کہ نیند کو کتنا دورانیہ طبی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

مگر اس سے ماضی کے شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ نیند اور صحت کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

ایک اور حالیہ تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ جو لوگ 5 گھنٹے یا اس سے کم وقت تک سوتے ہیں، ان میں 7 سے 8 گھنٹے تک سونے والے افراد کے مقابلے میں کسی بھی وجہ سے جلد موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

تاہم اگر ایسے افراد تعطیلات کے دوران نیند کی کمی پوری کرنے کی کوشش کریں تو سنگین امراض سے موت کا خطرہ کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ معمول کی نیند کا کوئی متبادل نہیں مگر اس کا انحصار لوگوں کی جسمانی گھڑی پر ہوتا ہے، یعنی مختلف افراد کو دن کے مختلف اوقات میں غنودگی کا سامنا ہوتا ہے۔

جنوبی کورین تحقیق میں نیند کے مثالی اوقات کا تعین نہیں کیا گیا۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل بی ایم سی پبلک ہیلتھ میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں