مری: لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس عباد رحمٰن لودھی کے اپلیٹ ٹریبیونل نے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے جمع کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی میں مبینہ ٹیمپرنگ اور ان کی منظوری پر ریٹرننگ افسر کو معطل کردیا اور سابق وزیرِ اعظم کو طلب کرلیا۔

شاہد خاقان عباسی کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 57 سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے گئے تھے جنہیں اسی حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار عمر عباسی اور ایک وکیل مسعود عباسی نے چیلنج کیا تھا۔

مذکورہ افراد کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ریٹرننگ افسر نے مبینہ طور ملی بھگت کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کے اثاثوں کی حقیقی قدر میں کمی کی۔

ٹریبیونل نے شاہد خاقان عباسی کو خود پیش ہونے یا پھر ان کے وکیل کے ذریعے 25 جون کو طلب کیا، اس کے علاوہ ٹریبیونل نے ریٹرننگ افسر حیدر علی، جو سیشن جج بھی ہیں، کو معطل کردیا جبکہ انہیں بھی طلب کر لیا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: شاہد خاقان عباسی سےوزراءکیلئےمنظور کردہ لگژری گاڑیوں کاریکارڈ طلب

درخواست گزار مسعود عباسی نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ سابق وزیرِ اعظم کی جانب سے جمع کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی میں ملی بھگت کرتے ہوئے کئی متنازع اور قابلِ اعتراض تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی نے 1990 کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران مری اور پتریاٹہ میں جنگل کی 2 اراضی لیز پر لی تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پتریاٹہ اس وقت تعمیر نہیں ہوا تھا اسی وجہ سے شاہد خاقان عباسی نے مری میں ہی اسی طرز کی دوسری زمین پر قبضہ کر لیا تھا، بعدِ ازاں اسی زمین پر شراکت داری میں ایک ہوٹل قائم کیا گیا تھا۔

مسعود عباسی کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی اپنے اثاثے چھپانے کی وجہ سے آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر پورا نہیں اترتے۔

یہ بھی پڑھیں: جی بی آرڈر 2018 معطل، شاہد خاقان عباسی کو توہین عدالت نوٹس جاری

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سابق وزیرِ اعظم نے دیول گاؤں میں اپنے آبائی گھر کی قیمت ایک لاکھ روپے بتائی ہے جبکہ اسلام آباد میں انہوں نے اپنے گھر کی قیمت 3 لاکھ روپے بتائی ہے۔

شاہد خاقان عباسی کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے والے مری میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکلا فورم کے صدر اسد عباسی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم کے کاغذاتِ نامزدگی کے 2 سیٹ جمع کرائے گئے تھے، تاہم اسی وجہ سے ان کاغذات کو چیلنج کرنے والے وکلا غلط فہمی کا شکار ہیں جسے اپیلیٹ ٹریبیونل میں دور کردیا جائے گا۔

اسد عباسی کا کہنا تھا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں ایک خانے میں اثاثے کی موجودہ قیمت کے بارے میں نہیں بلکہ اس قیمت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے جب وہ جائیداد خریدنے کے وقت تھی۔

انہوں نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی کے پاس ان کے والد کا وہ گھر ہے جو انہوں نے 1975 میں خریدا تھا تاہم کاغذاتِ نامزدگی میں ان کی وہی قیمت لکھی گئی ہے جو اس وقت تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی ایک صادق اور امین سیاست دان ہیں، جنہوں نے اپنی سیاست کا آغاز 1988 میں کیا اور کبھی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں رہے۔


یہ خبر 24 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں