پشاور: اقوام متحدہ کی جانب سے صرف خواتین کے لیے فراہم کردہ 14 بسیں ایبٹ آباد اور مردان کے پشاور بس اڈے پر گزشتہ 2 ماہ سے گرد آلود ہورہی ہیں۔

اس حوالے سے حکام نے بتایا کہ 100 ارب روپے مالیت کی جاپانی بسوں کو فعال کرنے میں مزید 2 ماہ کا وقت درکار ہے جس کی وجہ بسوں کے آپریٹرز کے انتخاب میں تاخیر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘کراچی کے بغیر نئے پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکتا’

اقوام متحدہ آفس فار پراجیکٹ سروسز نے ’پنک بسیں‘ 11 مئی کو صوبائی حکومت کے حوالے کی تھیں، جنہیں جی ٹی روڈ سے متصل لاہور بس اسٹنڈ پر اوپن ایئر میں پارک کردیا گیا۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ ایبٹ آباد اور مردان کے لیے بالترتیب 7، 7 بسیں ہیں، ایک بس کی مالیت 70 لاکھ 30 ہزار روپے ہے۔

ٹرانس پشاور نامی کمپنی کو ہی پنک بسیں فعال کرنے کا ہدف دیا گیا تھا، کمپنی نے 6 جون کو دونوں اضلاع میں بسوں کے آپریشن اور دیکھ بحال کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔

ٹینڈر کھلنے کی تاریخ 29 جون تھی تاہم ٹینڈر کھلنے سے قبل ٹرانس پشاور آفس میں 20 جون کو ایک اجلاس ہوا جس میں ٹینڈر کی تاریخ میں توسیع کرتے ہوئے 10 جولائی کردی گئی۔

مزید پڑھیں: 'عمران خان اور نواز شریف کے کیس کا موازنہ کرنا ناممکن'

اس ضمن میں بتایا گیا کہ ٹینڈر میں بڑے آپرٹرز کی عدم شمولیت کے باعث مذکورہ فیصلہ لیا گیا تھا۔

اجلاس میں 3 کمپنیوں، نوشین ٹرانسپورٹ، ڈائیو پاکستان اور ویڈا ٹرانسٹ سولوشن موجود تھیں۔

حکام نے ڈان کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے نے مردان اور ایبٹ آباد میں بسوں کے مقررہ اسٹاپ کی نشاندہی بھی کردی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین کے لیے 15 اسٹاپ تعمیر کرائے گئے جن پر سولرپینل بھی نصب کیے گئے تاکہ اندھیرے کے باعث خواتین کو پریشانی نہ ہو۔

اس حوالے سے حکام نے بتایا کہ ٹینڈر کا سارا عمل ایک سے ڈیڑھ ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد اور بنوں سے عمران خان کو انتخابات لڑنے کی اجازت

ٹرانس پشاور کے سینئر حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد کمپنیوں کو ٹینڈر میں شمولیت کے لیے آمادہ کیا تاکہ بہترین نتائج سامنے آسکیں۔

واضح رہے کہ رواں برس مئی میں سابقہ حکومت نے پشاور میں بی آر ٹی روٹس پر پنک بسیں چلانے کی ناکام کوشش کی تھی جس پر ٹرانس پشاور میں شدید بحران پیدا ہوگیا تھا۔

بعد ازاں کمپنی کے چیف ایگزیٹو افسر کو برطرف کردیا گیا تھا جس پر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر اور مینجمنٹ کے اعلیٰ افسران نے احتجاجاً استعفے دے دیئے تھے۔

جس کے بعد حکومت نے مستعفیٰ ہونے والے افسران کو اپنا فیصلے واپس لینے پر بھی راضی کرلیا تھا۔


یہ خبر 4 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں