اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنا اقتدار ختم ہونے سے قبل ایک کھرب 80 ارب روپے کی تجارتی قرض کی سرمایہ کاری کا بوجھ صارفین پر ڈال دیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے گردیشی قرض کو بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ محکمہ توانائی کو صارفین سے اس مد میں سرچارج وصول کرنے اور بجلی کے نرخ میں ایڈجسٹمنٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

انہوں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے اس وقت کے وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت پر 5 کھرب 14 ارب روپے کے گردشی قرضے دسمبر 2017 تک قابلِ واپسی بنانے کے لیے اقدامات دیکھنے میں آئے تھے۔

مزید پڑھیں: بجلی کمپنیوں نے ٹیرف میں 1 روپے 25 پیسے اضافہ کردیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک دستاویز سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کو پیش کیا گیا تھا اور یہ دستاویز ممکنہ طور پر 2 کھرب 98 ارب روپے توانائی خریداری کی ادائیگی، ایک کھرب 5 ارب روپے ادائیگی صلاحیت جبکہ سود کی ادائیگی، لیٹ سرچارج، دیگر ادائیگیوں سمیت ٹیکس کی ایک کھرب 10 ارب روپے کی ادائیگی پر مشتمل تھا۔

تاہم اس حوالے سے توانائی ادائگیوں کو تیز کرنے کے لیے وفاقی کابینہ کو ایک سمری ارسال کی گئی تھی۔

وفاقی کابینہ کی جانب سے 2 کھرب 50 ارب روپے کو استعمال میں لانے کی منظوری دی گئی تھی اور وزارتِ خزانہ کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ وہ مارکیٹ فنانسنگ میں ایک کھرب 80 ارب روپے کی سہولیات فراہم کریں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا توانائی شعبے کو 50 ارب روپے فراہم کرنے کا فیصلہ

تجارتی بینکوں سے مارکیٹ فنانسنگ کو 3 اقساط میں تقسیم کیا گیا تھا، جن میں ایک قسط 80 ارب روپے جبکہ 50، 50 ارب روپے کی 2 اقساط شامل تھیں، اور یہ پوری رقم سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کو دے دی گئی تھی۔

اس کے بعد سے سی پی پی اے ہائیڈرو پاور کے لیے واپڈا، نیوکلیئر پاور پلانٹس، آزاد توانائی پلانٹس اور دیگر بجلی پیداواری کمپنیوں اور ایندھن کی ترسیل کار کمپنیوں کو معاہدے کے تحت ادائیگیاں کر رہی ہے۔

تاہم اس دوران کمیٹی کی سربراہی کرنے والے سینیٹر شبلی فراز نے سوال کیا کہ کیا ان انتظامات کا یہ مطلب نہیں کہ توانائی کے شعبے میں تمام خامیوں کی ادائیگی بجلی صارفین سے کروائی جارہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں