اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے خصوصی اجلاس میں جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو ) کے نمائندے میجر جنرل آصف غفور نے بتایا ہے کہ ہمارا انتخابات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، ہم صرف الیکشن کمیشن کی ہدایت پر امن و امان کی صورتحال بہتر رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

سینیٹررحمٰن ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں نمائندہ جی ایچ کیو، نیکٹا کو آرڈینیٹر، وفاقی سیکریٹری داخلہ و دفاع، سیکریٹری الیکشن کمیشن، چاروں صوبوں کے آئی جیز و سیکریٹری داخلہ سمیت اہم اراکین سینیٹ نے شرکت کی۔

اجلاس کے دوران نمائندہ جی ایچ کیو میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں اس ایوان میں بات کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مسلح افواج ہمیشہ سول اداروں کو اپنی حمایت دیتی رہی ہیں، انتخابات کے لیے پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر کی جارہی ہے جبکہ الیکشن میں پرنٹنگ پریس کے لیے بھی فوج ڈیوٹی دے رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ’پاک فوج نے کسی شہر کیلئے کوئی سیکیورٹی الرٹ جاری نہیں کیا‘

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہمارا انتخابات میں براہ راست کوئی کردار نہیں، ہم صرف الیکشن کمیشن کی ہدایت پر امن و امان کی صورتحال کو بہتر رکھنے کے لیے کام کررہے ہیں۔

اجلاس کے دوران انہوں نے بتایا کہ 3 لاکھ 71 ہزار فوجی جوان ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنز پر تعینات ہوں گے،کچھ افواہیں تھیں کہ فوجی جوانوں کو مختلف احکامات جاری کیے گئے ہیں جو سراسر غلط ہے۔

اس موقع پر سینیٹر کلثوم پروین نے نمائندہ جی ایچ کیو سے سوال کیا کہ بلوچستان میں کتنے فوجی بھیجے جارہے ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے بلوچستان میں ضرورت کے مطابق تعیناتی کی ہے، سیکیورٹی کے حوالے سے ہم نے ہر جگہ کا تجزیہ کیا ہے، پلاننگ کا معاملہ ہم پر چھوڑدیں، ہمیں پتہ ہے کہ کس جگہ کتنے بندے تعینات کرنے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق کے تحت کام کرنا ہے، باہمی رابطے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے جب تک پولیس کی استعداد نہیں بڑھتی،ہمیں پولیس کی ڈیوٹی بھی دینی ہے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جب افغانستان میں انتخابات ہوئے تھے تو ہم نے سرحد کے اس طرف غیر معمولی اقدامات کیے تھے، اس مرتبہ افغانستان کے صدر نے وزیراعظم اور آرمی چیف کو فون کرکے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اجلاس کے دوران انہوں نے بتایا کہ فوج کسی سیاستدان کی سیکیورٹی کی براہ راست ذمہ داری نہیں لے رہی، سیاسی امیدواروں کی سیکیورٹی حکومت پاکستان کی اور الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے، ہم انتخابات کے دوران سیکیورٹی کے لیے الیکشن کمشن کی معاونت کر رہے ہیں۔

تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خطرہ ہے، نیکٹا

اس موقع پر نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ( نیکٹا) کے سربراہ ڈاکٹر سلیمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک 65 تھریٹ الرٹ ( خطروں کے انتباہ ) آئے ہیں، سب سے زیادہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) کی طرف سے یہ خطرے ہیں، اس کے علاوہ جماعت الاحرار اور داعش سے بھی خطرات آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) لندن کی طرف سے بھی ایک خطرے کا انتباہ ریکارڈ پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ’نشانہ‘ بنائے جانے کا خدشہ

اس دوران سینیٹر جاوید عباسی نے سوال کیا کہ مستونگ اور خیبرپختونخوا میں جو حملے ہوئے کیا نیکٹا نے اس حوالے سے پیشگی اطلاع دی تھی؟اگر کوئی بڑی قیادت جلسہ کرنا چاہے تو کیا اسے بھی کہا جاتا ہے کہ جلسہ نہ کریں خطرہ ہے؟

اس پر جواب دیتے ہوئے کو آرڈینیٹر نیکٹا نے بتایا کہ سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر لیے جائیں تو جلسہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، ہارون بلور کی کارنر میٹنگ کے حوالے سے معلومات نہیں دی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) کو خطرہ ہے جبکہ مستونگ واقعے سے قبل خطرے کا انتباہ جاری کیا گیا تھا۔

پولنگ اسٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں گے، الیکشن کمیشن

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے بھی بریفنگ دی اور بتایا کہ انتخابات میں واٹر مارک بیلٹ پیپرز دئیے جائیں گے اور تمام پولنگ اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس 85 ہزار پریزائڈنگ افسرہیں جبکہ پاک فوج کے افسروں کو بھی ٹریننگ دی جارہی ہے۔

اس موقع پر قبر کے نشان پر وضاحت دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریٹرننگ افسر انتخابی نشان الاٹ کرتا ہے لیکن کسی کو قبر کا انتخابی نشان نہیں دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں