لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر ہیں.
لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر ہیں.

سیاسی بحث و مباحثے اب ’ڈرائنگ روم‘ سے نکل کر اسمارٹ فونز کے ذریعے ہتھیلی پر ہونے لگے ہیں، یہی اسمارٹ فونز ہمیں سوشل میڈیا جوڑتے ہیں۔ دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی سرگرمی نے ڈجیٹل میدان میں میں قدم رکھ لیا ہے۔

2018 کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب سیاست اور انتخابات میں سوشل میڈیا کا کردار گزشتہ 5 برسوں کے مقابلے میں زیادہ بڑھ گیا ہے، 5 برس پہلے ہم نے پہلی بار سیاسی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال ہوتے دیکھا تھا۔ رواں سال، نوجوانوں کے لیے سیاست کے حوالے سے آگاہی کا سب سے اہم ذریعہ سوشل میڈیا رہا اور یہی نوجوان پہلی بار اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

نوجوانوں کا ووٹ نہایت اہمیت کا حامل ہے؛ کیونکہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے اعداد کے مطابق ملک کی 64 فیصد آبادی 30 برس سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ پاکستانی، یعنی آبادی کا 27 فیصد حصہ، موبائیل انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ پی ٹی اے کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے ایک بڑی اکثریت سوشل میڈیا پر سرگرم ہے۔

ان کے ووٹنگ کے فیصلے پر سوشل میڈیا کے اہم کردار کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کیونکہ جب سے تعلیمی اداروں پر طلباء یونین پر پابندی عائد ہوئی ہے تب سے کسی قسم کی متبادل سیاسی جگہیں دستیاب نہ ہونے کے باعث سیاسی شخصیات اور جماعتوں نے اپنے بے تحاشا حامی آن لائن پر ہی اکٹھا کیے ہیں۔

پڑھیے: سوشل میڈیا کی منڈی میں افواہیں بھی بکتی ہیں

سوشل میڈیا دیگر اقسام کے میڈیا سے زیادہ جمہوریت پسند ہے، مثلاً آپ اپنے خیالات کا اظہار بلاروک ٹوک کرسکتے ہیں، معلومات اور حالات و واقعات کی خبریں دیگر لوگوں سے بانٹ سکتے ہیں، اس کے علاوہ روایتی میڈیا کے برعکس کسی قسم کی ایڈیٹوریل کنٹرول کے بغیر تصاویر اور وڈیوز اپ لوڈ کرسکتے ہیں۔ یوں بڑی تعداد میں لوگ سوشل میڈیا پر حصہ لیتے ہیں جس کے ذریعے شہری صحافت کے تصور کو فروغ ملتا ہے۔

بڑی تعداد میں لوگوں کا مطلب ہے انتخابی امیدواروں کا بڑے پیمانے پر احتساب، کیونکہ سوشل میڈیا پر آنے والے ان امیدواروں کے برسوں پرانے بیانات محفوظ ہوتے ہیں اور ان تک با آسانی رسائی بھی حاصل کی جاسکتی ہے، جبکہ وڈیوز اور تصاویر بھی سرکیولیشن کے لیے باآسانی دستاب ہوتی ہیں۔ چنانچہ اس طرح ان کی نہ صرف کڑی جانچ پڑتال کی جاتی ہے بلکہ جھوٹے وعدے کرنے پر سنگین نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں، جو کہ روایتی سیاست کے لیے غیر معمولی حد تک ایک پریشان کن بات ہے۔

تاہم اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی معلومات پھیلانے کا کام بھی کیا جاسکتا ہے۔ جھوٹی خبروں کا سلسلہ بالخصوص انتخابات کے دنوں میں عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ مثلاً، کسی ریلی کی تصویر کو ایڈیٹنگ کرکے بڑی ریلی دکھانا، کسی سیاسی رہنما کی ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ لے کر اس میں رد وبدل کرنے کے بعد اس رہنما کے نام سے منسوب بیان، اس کے علاوہ ذاتی زندگی کے بارے میں مفصل افواہیں اور مالی کرپشن کے حوالے سے خبریں بغیر تصدیق کے بڑی سطح پر سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بھی ہے جہاں جھوٹی خبروں کا شکار بننے والے افراد لوگوں کو حقیقت سے واقف کرتے ہیں۔ تاہم حلقے کی بنیاد پر ’جو پہلے پہنچا وہی سکندر‘ والے اس انتخابی نظام میں سوشل میڈیا کا جس حد تک اثر رکھتا ہے وہ کافی پیچیدہ ہے۔ جس طرح شہروں میں بڑے سیاسی جلسے منعقد کیے جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح سوشل میڈیا پر موجود ہیش ٹیگز اور ٹرینڈز جغرافیائی لحاظ سے گوناگوں آبادی کو اکٹھا کرتے یں اور ان کی آواز کو بلند کرتے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا کا یہ اثر زیادہ سے زیادہ حلقوں پر جیت کی صورت میں منتقل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، جس کی خواہاں تمام سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔

شہری علاقوں میں انٹرنیٹ کا استعمال بہت زیادہ ہے، انہی شہروں میں کئی لوگ اپنے گھروں سے دور تعلیمی اور روزگار مقاصد کی وجہ سے یہاں مقیم ہیں، مگر ان کے ووٹ ان کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں رجسٹرڈ ہیں۔

مزید پڑھیے: سوشل میڈیا پر دہشتگردوں کی نگرانی کس کا ذمہ؟

تاہم، شہروں کے رہائشیوں کے لیے شہروں کے انفرادیت پسند کلچر کی وجہ سے سوشل میڈیا کافی زیادہ اثر رکھتا ہے، کیونکہ یہاں دیہی علاقوں کے برعکس لوگ انتخابی امیدواروں سے ذاتی گفتگو یا ان کی سرپرستی ووٹنگ کے فیصلے کے لیے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔

مگر پاکستان کے دیہی حلقوں میں ذات برداری اور سرپرستی جیسے عناصر نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ امیدواروں کو اپنے حلقے کی اہم شخصیات کی شادیوں اور میتوں میں شرکت کرنی ہوتی ہے، پھر وہی اہم شخصیات امیدوار سے وعدے کرتے ہیں کہ ان کا پورا خاندان صرف انہیں ہی ووٹ ڈالے گا۔ سوشل میڈیا ان روایات کو بڑھاوا دے سکتا ہے، حالانکہ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جب ایک ہی امیدوار مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑا اور کامیاب ہوا، مگر پھر بھی سوشل میڈیا پر ایک پارٹی تک محدود مہم چلانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا عوام کے لیے معلومات کا ایک اہم ذریعہ بھی رہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کو سخت سینسرشپ کا سامنا تھا۔ یہ سینسرشپ سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ ہے، مثلاً جب عوامی ورکرز پارٹی کی ویب سائٹ کو دو ماہ قبل بلاک کردیا گیا تو انہوں نے اپنا مواد سوشل میڈیا پیجز پر رکھ دیا، ویب سائٹ کے مقابلے میں سوشل میڈیا پیجز پر مواد کو سینسر کرنا جابرانہ ریاستی مشینری کے لیے بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

خود سینسرشپ کے بارے میں خبروں کی گردش اب روزمرہ کی بات ہوگئی ہے، کیونکہ جب اخبارات کالم نگاروں کے مضامین شائع کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ اپنے مضامین سوشل میڈیا پر شائع کردیتے ہیں۔

چنانچہ یہ واضح محسوس کیا جاسکتا ہے کہ شہریوں کے حقوق کو سوشل میڈیا کے ذریعے شہری حقوق کو تحفظ ملتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر ہی اظہار رائے اور تنظیم کا حق اور معلومات کا حق کا خیال رکھا جاتا ہے، تاہم انسدادِ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی چند سیاہ شقوں کے ذریعے ان حقوق کو چھیننے اور اس کے ساتھ ساتھ چند ریاستی اداروں پر تنقید کے سنگین بھگتنے کا خطرہ ہمیشہ منڈلاتا رہتا ہے۔

ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ جب بھی آن لائن کوئی معلومات موصول ہو تو محتاط رہا جائے کیونکہ جھوٹی خبر کو بھی باآسانی کہیں سے بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پاکستان میں انتخابات کے لیے چیلنجز سے زیادہ فائدہ کا باعث بنتا ہے۔

یہ مضمون 25 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں