ووٹروں کو ناخواندگی کا طعنہ دے کر سارہ تاثیر مشکل میں پڑ گئیں

25 جولائ 2018
بلوچستان کے علاقے پنجگور میں خواتین عام انتخابات 2018 میں ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔ فوٹو بشکریہ ارشد شریف ٹوئٹر اکاؤنٹ۔
بلوچستان کے علاقے پنجگور میں خواتین عام انتخابات 2018 میں ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔ فوٹو بشکریہ ارشد شریف ٹوئٹر اکاؤنٹ۔

جہاں ریاستی اداروں بشمول الیکشن کمیشن کی طرف سے عام انتخابات 2018 کے لیے مختلف قوانین اور سازگار ماحول بنا کر یہ کوشش رہی کہ ووٹروں، خاص طور پر خواتین ووٹروں کا ٹرن آؤٹ بڑھایا جائے، وہیں سابق مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی سارہ تاثیر نے بلوچستان میں ووٹ دینے کے لیے آنے والی خواتین کو ناخواندگی کا طعنہ دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔

انہوں نے ایک ٹوئیٹ کی جس میں انہوں نے یونانی فلسفی افلاطون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوری نظام میں ہر شخص کو ووٹنگ کے مرحلے میں حصہ لینے کے لیے کم از کم ایک مخصوص حد تک تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔

ٹی وی اینکر ارشد شریف کی جانب سے بلوچستان میں خواتین ووٹرز کی ایک تصویر پوسٹ کی گئی جس میں خواتین زمین پر بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں۔

سارہ تاثیر نے اس ٹوئیٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے انتخابات میں خواتین کا ٹرن آؤٹ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، مگر یہ ایک نہایت ڈراؤنا خیال ہے کہ ایسی خواتین قوم کے مستقبل کا فیصلہ کر رہی ہیں جن کے بارے میں میں سوچتی ہوں کہ کیا میں انہیں اجازت دوں گی کہ وہ میرے کچن میں کیا پکے گا کے حوالے سے بھی فیصلہ کر سکیں؟

سارہ تاثیر کی یہ ٹوئیٹس سامنے آتے ہی ٹوئٹر صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں "طبقاتی تفریق پھیلانے" پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹوئٹر صارف اقبال حیدر بٹ نے سارہ تاثیر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ دنیا اب زمانہ قدیم کے یونانی فلسفیوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ انہوں نے سارہ تاثیر کو موجودہ دور میں جینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ صدی سے ایک چیز تسلیم شدہ ہے، اور وہ بلوغت کی بناء پر رائے دہی کا حق ہے۔

ایک اور ٹوئٹر صارف نے سارہ تاثیر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب بلوچستان میں ووٹر سنگین خطروں اور دھماکوں کے باوجود ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکالنے رہے ہیں، تو سارہ کسی ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر خواتین ووٹروں کی وضع قطع کا مذاق اڑا رہی ہیں اور ان کے حقِ رائے دہی پر سوال اٹھا رہی ہیں۔

جب ناول نگار بینا شاہ نے انہیں اشرافیہ سوچ کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں ہر کسی، خصوصاً خواتین کو ووٹ دینے اور اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ تو سارہ نے جواب میں کہا کہ جن انتخابات میں ان کے والد نے حصہ لیا، ان میں ان (سارہ نے) بالکل بنیادی سطح پر کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکثریتی خواتین کے ووٹ کو آزاد اور جمہوری نہیں قرار دیا جا سکتا کیوں کہ ان کے ووٹ کا فیصلہ جرگہ سربراہ، شوہر، باپ، یا دیگر افراد کرتے ہیں۔

کئی افراد نے سارہ سے ٹوئیٹ ڈیلیٹ کرنے اور اپنے الفاظ پر معافی مانگنے کا کہا مگر انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا پہلی بار نہیں کہ انہوں نے ووٹروں کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت کی بات کی ہے، بلکہ وہ گزشتہ انتخابات میں بھی ایسا کر چکی ہیں۔

بعد میں انہوں نے اپنی وہ ٹوئیٹ ڈیلیٹ کر دی جس میں انہوں نے اینکرپرسن ارشد شریف کی پوسٹ کردہ تصویر پر تبصرہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں