اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں پانی کے ذخائر تعمیر کرنا عدلیہ کا کام نہیں ، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز اکھٹے کر نے سے متعلق مقدمے کی سماعت کی، جس میں ڈیمز کی تعمیر کے لیے جمع ہونے والے فنڈز کی شفافیت پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ صرف نگراں کا کردار ادا کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے ملک میں پانی کی قلت کا نوٹس لے لیا

واضح رہے کہ چیف جسٹس نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے عطیات پر مبنی فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں سب سے پہلے خود انہوں نے 10 لاکھ روپے جمع کروائے تھے، اب تک اس فنڈ میں کروڑوں روپے جمع کروائے جاچکے ہیں۔

اس حوالے سے چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ ٹھیکے دینے کے معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی، نہ ہی دونوں ڈیمز کے تعمیری منصوبے اور ڈیزائن کے معاملے میں دخل دے گی، تاہم یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ منصوبے کے لیے مختص فنڈ میں کوئی گڑ بڑنہ کی جائے نہ اس رقم سے غیر قانونی طور پر کمیشن بنایا جائے۔

مزید پڑھیں: ’ ڈیم بنانے کے لیے اب سپریم کورٹ کردار ادا کرے گی‘

واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے ڈیمز کی تعمیر کے لیے متفقہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد 4 جولائی کو سپریم کورٹ نے فنڈز اکھٹے کرنے کے لیے اکاؤنٹ کھولنے کا حکم دیا تھا ،اور اس ضمن میں حکومت واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) اور انتظامیہ کو فوری طور پر عملی اقدمات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سماعت کے دوران بیرسٹر اعتزاز احسن نے تجویز پیش کی کہ عدالت ڈیم کی تعمیر کا معاملہ حکومت کے سپرد کرنے کے خود مشاورتی کردار ادا کرے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ججوں کا کام نہیں کہ وہ فنڈز اکھٹے کریں ،تاہم انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ایک درگاہ کے دورے کے دوران فنڈز میں جمع کرانے کے لیے کسی نے انہیں 5 لاکھ روپے کا چیک دیا ۔

یہ بھی پڑھیں: آبی قلت کا معاملہ: ہم رہیں نہ رہیں ڈیم ضرور بنے گا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ انہیں یقین ہے کہ عوام ملک میں پانی کے ذخائر کی اہمیت سے آگاہ ہیں، اور اس سلسلے میں تعاون بھی کرنا چاہتے ہیں، لیکن سمندر پار پاکستانیوں کو عطیات جمع کروانے میں دشواری کا سامنا ہے۔

جس پر گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ امریکا اور جرمنی میں تارکین وطن کی جانب سے عطیات وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، تاہم مشرق وسطیٰ میں مقیم افراد کو پاکستان میں رقم کی ترسیل سے قبل اجازت لینے کی شرط کے باعث عطیات دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈیموں کی تعمیر کیلئے پیسہ دینے والوں کے ہاتھ چومنے چاہئیں، چیف جسٹس

اس موقع پر بینچ میں شامل جسٹس عمر بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے ڈیمز کی تعمیر کا معاملہ قومی سطح پر اس کی اہمیت دیکھتے ہوئے اٹھایا، جو قوم کے اتحاد کے لیے بھی ضروری تھا۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ 2005 میں آنے والے زلزلے کے فنڈز میں بے ضابطگیوں کے بعد سے لوگوں کو فنڈز کے معاملے میں شفافیت پر سخت تحفظات ہیں،تاہم انہوں نے فنڈز جمع کرنے کے لیے اسکول کے بچوں کو متحرک کرنے کے اقدام کو سراہا۔


یہ خبر 31 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں