5 ہزار سال پرانے راز سے پردہ اٹھ گیا

03 اگست 2018
— فوٹو بشکریہ ایڈم اسٹینفورڈ/ایریل کیم لمیٹڈ
— فوٹو بشکریہ ایڈم اسٹینفورڈ/ایریل کیم لمیٹڈ

برطانیہ میں موجود اسٹون ہینج ہزاروں سال پرانی ایسی یادگار ہے جس کے بارے میں صدیوں سے لوگ یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر اسے کیوں تعمیر کیا گیا اور اسے بنانے والے کون تھے۔

اور اب لگتا ہے کہ ہزاروں سال بعد اس راز سے پردہ اٹھ ہی گیا ہے۔

جنوبی برطانیہ میں سالسبری سے 13 کلومیٹر شمال میں واقع یہ لگ بھگ 5 ہزار سال پرانی یادگار 25 ٹن وزن چٹانوں پر مشتمل ہے جس کے نیچے متعدد راز چھپے ہوئے ہیں۔

سائنسدان یہ تو پہلے ہی جان گئے تھے کہ درحقیقت یہ مقام آخری قیام گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا اور وہاں سے زمانہ قدیم کی انسانی باقیادت بھی دریافت کی گئی تھی۔

تاہم اب نئی تحقیق میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ درحقیقت وہ دفن کیے جانے والے افراد کہاں سے تعلق رکھتے تھے۔

وہاں ملنے والی باقیات کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت ویلز سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے جو اس مقام سے 140 میل دور واقع ہے۔

تحقیق کے مطابق درحقیقت یہ ٹنوں وزنی چٹانیں ویلز میں ہی تعمیر کی گئیں اور پھر وہاں سے موجودہ مقام پر کچھ لوگوں کے ساتھ منتقل کی گئیں اور یہ لوگ وہاں ہمیشہ قیام کے لیے گئے تھے۔

یعنی جب وہ مرگئے تو ان کی لاشوں کو جلانے کے بعد راکھ کو چٹانوں کے نیچے دفن کردیا گیا۔

بیلجیئم سے تعلق رکھنے والی Vrije یونیورسٹی کے کرسٹوفر سنویک نے تحقیقی ٹیم کی قیادت کی اور انہوں نے دریافت کیا کہ جن 40 فیصد افراد کی باقیات کا تجزیہ کیا گیا وہ اسٹون ہینج پر اپنی زندگی کے آخری دہائی میں ہی آئے تھے۔

ہڈیوں کے کیمیائی تجزیے سے معلوم ہوا کہ 25 میں سے 10 افراد مقامی نہیں تھے اور یہ وہ وقت تھا جب پہیے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی، تو اس وجہ سے لوگ اپنی بستیوں سے چند کلومیٹر دور سے زیادہ نہیں جاتے تھے۔

محققین نے اس حوالے سے ایک تیکنیک تشکیل دی تھی جس سے ایک عنصر اسٹرونشیم کی شناخت کرسکیں، یہ ایسا عنصر ہے جو زمین سے پودے اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور جب سبزیوں یا پھلوں کو کھایا جاتا ہے تو یہ ہڈیوں میں جمع ہوجاتا ہے۔

سائنسدان اسٹرونشیم کی مختلف قسم آئیسوٹوپس کو شناخت کرسکتے ہیں جو دانتوں کی سطح میں محفوظ ہوجاتا ہے، جس سے محققین کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ مردہ شخص کہاں کا رہائشی تھا۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق اسٹرونشیم علم ارضیات سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے ارضیاتی معلومات ملتی ہے اور اسٹون ہینج سے ملنے والی ہڈیوں کی راکھ سے کسی نہ کسی طرح اس عنصر کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی۔

تحقیق کے مطابق نتائج سے بالغ آبادی کی نقل مکانی کے حوالے سے ایک نیا عہد سامنے آیا ہے جو اس سے قبل ناممکن سمجھا جاتا تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ اسٹرونشیم آئسوٹوپس کے نمونے ویلز کے شہریوں سے میچ کرگئے، ابھی یہ تو ثابت کرنا ممکن نہیں کہ وہاں کے لوگوں نے ہی اس یادگار کو تعمیر کیا تھا مگر انسانی باقیات کا دور اس عہد کے قریب ترین ہے جب اسٹون ہینج تعمیر ہوا۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں