لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

اب جو چیزیں ہمارے سامنے کچھ وقت میں آئیں گی، اس کے خدوخال نظر آنے شروع ہوگئے ہیں اور اس کی شروعات امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے ایک انٹرویو میں دیے گئے حالیہ بیان سے ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ’ٹیکس ڈالروں‘ کو پاکستان کے چینی قرض خواہوں کو بیل آؤٹ دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

جس دن انہوں نے یہ انٹرویو دیا، اسی دن سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی ویب سائٹ پر آئی ایم ایف کے لیے امریکی حکومت کے 'نمائندے' کے طور پر کام کرنے والے مارک سوبل کی ایک بلاگ پوسٹ منظرِ عام پر آئی۔

سوبل کی پوسٹ انٹرویو میں دیے گئے پومپیو کے بیان میں مزید وزن کا اضافہ کرتی ہے۔ وہ سی پیک کو پاکستان کے اقتصادی ملغوبے میں نیا جزو قرار دیتے ہیں اور پھر ان الفاظ میں خبردار کرتے ہیں: ’جہاں سی پیک پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، خاص طور پر اگر سرمایہ کاری مناسب ہو، تو وہیں زیادہ تر قرضوں کے شرائط و ضوابط عدم شفاف ہیں اور کچھ قرضوں پر شرحِ سود پاکستان کی قوتِ ادائیگی سے زیادہ ہوگی۔‘

اسے ذہن میں رکھتے ہوئے سوبل کچھ خیالات پیش کرتے ہیں کہ جب نئی پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کے پاس جائے تو وہ کیا کرسکتا ہے۔ میکرو اکنامک صورتحال کو مستحکم کرنے کی کچھ لازم روایتی پالیسیاں گنوانے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ’فنڈ کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے وسائل غیر مستحکم چینی قرضوں سے بیل آؤٹ دینے کے لیے استعمال نہ ہوں۔ سی پیک کے تمام قرضوں سے متعلق جامع ڈیٹا، بشمول اس کی شرائط، اس کے میچورٹی کے دورانیے اور اس میں شامل فریقین کی تفصیلات، فنڈ کی انگلیوں پر ہونا چاہیے۔ چینی قرضے حقیقت پسند شرائط پر مبنی اور پاکستان کے (معاشی) استحکام کے ساتھ مطابقت میں ہونے چاہیئں۔ ورنہ چین کو یا اپنے قرضے ری شیڈول یا پھر معاف کرنے ہوں گے، جس سے اس کے دعوؤں کی قدر شدید گھٹ جائے گی۔‘

پڑھیے: ‘آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ’؛ پاکستانی معیشت کا اصل مسئلہ

مختصراً کہا جائے تو پاکستان کے لیے بیل آؤٹ سے پہلے آئی ایم ایف کو تمام چینی قرضوں اور حکومتِ پاکستان پر واجب الادا تمام رقومات کی مکمل تفصیلات پر غور کرکے، مستحکم قرضوں کا ایک تفصیلی تجزیہ تیار کرنا ہوگا اور جہاں ضرورت پڑے، اسے پاکستانی حکومت کو کہنا ہوگا کہ وہ چین سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی درخواست کرے، اس سے پہلے کہ کسی بیل آؤٹ کا انتظام کیا جاسکے۔

’جہاں سی پیک پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، خاص طور پر اگر سرمایہ کاری مناسب ہو، تو وہیں زیادہ تر قرضوں کے شرائط و ضوابط عدم شفاف ہیں اور کچھ قرضوں پر شرحِ سود پاکستان کی قوتِ ادائیگی سے زیادہ ہوگی۔‘

رائٹرز کے مطابق سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا تھا کہ یہ قرضے اتنے بڑے نہیں ہیں جتنا کہ مغرب تصور کرتا ہے اور یہ کہ ان کی 'اوسط شرحِ سود' 2 فیصد ہے۔ رائٹرز کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ قرضے ایسے نہیں جو ہماری کمر توڑ دیں گے‘۔ انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ’وزارتِ خزانہ کے حساب و کتاب نے دکھایا تھا کہ اگلے 5 سالوں کے لیے پاکستان کی کُل سالانہ قرض ادائیگی اور چینی کمپنیوں کی جانب سے نفعے کی باہر منتقلی ایک ارب ڈالر سے کم ہوگی۔‘

ٹھیک ہے، مگر کچھ سوالات پھر بھی پیدا ہوتے ہیں۔ منصوبہ بندی کمیشن نے تقریباً ایک سال قبل کیسے 3 ارب ڈالر کے قریب کا تخمینہ لگایا تھا؟ اور جب آئی ایم ایف اور حکومت نے ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر پر سی پیک کی وجہ سے باہر جانے والی رقم سے پڑنے والے دباؤ پر بحث کی تھی تو اسحٰق ڈار کی ٹیم کی جانب سے جواب دیا گیا تھا کہ ہم ہمیشہ سی پیک کو بنیاد بنا کر چین سے مزید قرضہ حاصل کرسکتے ہیں (یہ گفت و شنید 2013ء میں طے پانے والے معاہدے کے ریویو ڈاکیومنٹس میں مختصراً موجود ہے)۔

اور اگر ہم یہاں پہنچ ہی چکے ہیں، تو ہمیں یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ پاکستان کی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیوں کر اگلے سال 45 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی، جیسا کہ فنڈ کے آخری بعد از پروگرام مانیٹرنگ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا (یہ ڈیٹا بھی آئی ایم ایف کو حکومت نے فراہم کیا تھا اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فنڈ اپنی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔)

چنانچہ اگر پاکستان فنڈ کے پاس بیل آؤٹ کے لیے گیا تو فنڈ اتنی آسانی سے راضی شاید نہ ہو (مجھے زیادہ بھروسہ نہیں کہ آخری منٹ پر کوئی تیسرا آپشن اچانک آجائے گا)۔ اور سوبل جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس کی ماضی میں بھی مثال ملتی ہے۔

1998ء میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو کسی بھی قرضے کی توقع کرنے سے پہلے اپنے یورو بانڈز ری شیڈول کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس کی منطق یہ دی گئی تھی کہ پاکستان خارجی شعبے میں لاحق مشکلات کو بیل آؤٹ کرنے کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری نجی شعبے کو بھی اٹھانے کے لیے کہے۔ اس وقت بھی اسحٰق ڈار وزیرِ خزانہ تھے اور انہیں یہ شرط پوری کرنے میں کافی مشکل ہوئی۔ انہوں نے اس بلند و بانگ انداز میں شکایت کی کہ فنڈ سیاسی شرائط عائد کر رہا ہے۔

مزید پڑھیے: 'نئی حکومت کے پاس ڈالروں کی خریداری کے لیے کم وقت ہوگا'

بالآخر وہ بانڈز واقعی ری شیڈول ہوئے جو کہ اتفاقاً کسی بھی حکومت کی جانب سے کی گئی یوروبانڈز کی پہلی ری شیڈولنگ تھی، مگر یہ فوجی بغاوت کے بعد ہی ہوا۔ پھر فنڈ نے وسائل جاری کیے اور ایک تنگ دست منصوبے پر فریقین راضی ہوئے جس میں خزانہ اور مالیاتی پالیسیوں کے حوالے سے سخت شرائط عائد کی گئیں۔

سوبل کی دوسری تجاویز محصولات اور شرحِ سود کے حوالے سے سخت پیشگی شرائط اور کرنسی کی شرحِ تبادلہ میں زیادہ لچک بھی شامل ہیں۔ پھر وہ اس ملغوبے میں کچھ پریشانی بھی شامل کرتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف کو پاکستانی اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے۔‘

یہ کیا ہے؟ کیا آئی ایم ایف واقعی نئی حکومت سے کہہ سکتا ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی بھی قرضہ جاری ہو، وہ پارلیمنٹ میں پہلے اپوزیشن جماعتوں کی رضامندی حاصل کرے؟ کیا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے یہ رضامندی حاصل کرنا آسان ہوگا؟

ایک بار پھر، اس حوالے سے مثال موجود ہے۔ 1994ء میں جب معین قریشی کی قائم مقام حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے پر گفت و شنید کر رہی تھی تو فنڈ نے پہلے لازم قرار دیا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت (میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو) کے تحریری حلف نامے جمع کروائے جائیں کہ قائم مقام حکومت کی طے کردہ شرائط سے منظور ہونے والے معاہدے پر وہ عملدرآمد کرنے پر راضی ہیں۔ اس کے پیچھے تصور یہ تھا کہ پروگرام پر سیاسی اتفاقِ رائے اور احساسِ ملکیت بڑھایا جائے اور مرکزی سیاسی جماعتوں کی حمایت طلب کرنا ایسا کرنے کا ایک طریقہ تھا۔

ظاہر ہے کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس قائم مقام حکومت نہیں جا رہی، مگر اب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی احساسِ ملکیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ماضی کے پروگرامز کا نفاذ کھٹائی میں پڑا اور کوئی بھی نیا قرضہ جاری ہونے سے قبل وسیع تر احساسِ ملکیت کا مظاہرہ ضروری ہے۔

کیا آئی ایم ایف واقعی نئی حکومت سے کہہ سکتا ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی بھی قرضہ جاری ہو، وہ پارلیمنٹ میں پہلے اپوزیشن جماعتوں کی رضامندی حاصل کرے؟ کیا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے یہ رضامندی حاصل کرنا آسان ہوگا؟

پڑھیے: نئی حکومت کے لیے منتظر کانٹوں کا تاج

اگر آئی ایم ایف نے یہ شرط سامنے رکھ دی تو پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے دور کے آغاز سے ہی اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔

پھر بھی یہ ممکن ہے کہ نئی حکومت کوئی تیسرا راستہ تلاش کرلے اور ہمیں ان ساری مشکلات سے نہ گزرنا پڑے۔ کسی دوسرے ذریعے سے بیل آؤٹ مل سکتا ہے مگر زیادہ سے زیادہ یہ اس فیصلے کو کچھ ماہ کے لیے ملتوی کردے گا۔ بیرونی شعبے کے شدید ترین خسارے میں گھرے ہوؤں کی مدد کرنا تھکا دینے والا کام ہے، قریب ترین دوستوں کے لیے بھی۔ مگر نئی حکومت کا عالمی اداروں کے ساتھ پہلا رابطہ ایک اہم امتحان ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں