انسان عمر بڑھنے کی وجہ سے بوڑھے نہیں ہوتے بلکہ ایسا درحقیقت اس جینیاتی عمل کے نتیجے میں ہوتا ہے جو اوائل عمر میں ہماری نشوونما میں مدد دیتا ہے۔

یہ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

لندن کالج یونیورسٹی، کوئین میری یونیورسٹی اور لانسٹر یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ جینیاتی پروگرام جو شروع میں مددگار ہوتا ہے وہ درمیانی عمر کے بعد 'بلاوجہ' کام جاری رکھ کر بڑھاپے کا شکار بناکر مختمف امراض میں مبتلا کردیتا ہے۔

مزید پڑھیں : 16 غذائیں جو بڑھاپے کی جانب سفر سست کریں

تحقیق کے مطابق اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جو خواتین بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، تو کیلشیئم ان کی ہڈیوں سے خارج ہوکر دودھ کو بچوں کے لیے صحت بخش بناتا ہے مگر یہ عمل درمیانی عمر میں بھی جاری رہتا ہے جس سے ہڈیوں کے بھربھرے پن، جوڑوں کے امراض اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اسی طرح ایک ہارمون testosterone کی زیادہ مقدار جوانی میں مردوں میں اسپرم کاﺅنٹ بڑھانے میں مدد دیتا ہے مگر بعد کی زندگی میں مثانے کے کینسر کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ دہائیوں سے سائنسدان بڑھاپے پر تحقیق کررہے ہیں تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ہمارے جسم بڑھاپے کا شکار کیوں ہوتے ہیں۔

ہم نے اب دریافت کیا ہے کہ اس کی وجہ عمر بڑھنے سے جسمانی تنزلی نہیں بلکہ جینیاتی عمل ہے، جو کبھی ہمارے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے مگر اس کی قیمت ہمیں بڑھاپے کی شکل میں چکانی پڑتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : بڑھاپا سے بچنے کا طریقہ دریافت؟

جسم اس لیے تنزلی کا شکار ہوتا ہے کیونکہ ایک پراسیس ‘senescence’ چل رہا ہوتاہ ے جس میں خلیات تقسیم ہونا ختم کرکے مرنے لگتے ہیں اور یہ پراسیس امراض اور موت کی جانب لے جاتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس معلومات سے ہمیں انسانی بڑھاپے کو سمجھنے میں مدد ملے گی ، اور درمیانی عمر کے امراض کے علاج میں بھی مدد ملے گی کیونکہ کسی علاج کے لیے آپ کو وجہ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں