لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں

کیا تعلیم ہر بچے کا حق ہے؟ آئین کی شق 25 (الف) کہتی ہے کہ تعلیم ہر بچے کا حق ہے، اور واضح انداز میں کہتی ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے تحت ہمارے بین الاقوامی عہد بھی ہمیں ایسا کرنے کے لیے پابند کرتے ہیں۔ اور یہ حق غیر مشروط ہے، چاہے بچہ کسی بھی صورتحال کا شکار ہو، تعلیم اس کا حق ہے۔

کیا تعلیم سے فرق پڑتا ہے؟ اس حوالے سے زیادہ تر مواد کہتا ہے کہ ایسا ہے۔ انفرادی و خاندانی فوائد کی صورت میں تعلیم کے فوائد بے پناہ ہیں۔ تعلیم یافتہ ماؤں کا اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور زندگی پر بھی بے پناہ اثر پڑتا ہے اور تمام بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے معاشرے پر وسیع تر اثرات پڑتے ہیں۔

حال ہی میں برطانوی حکومت نے جسمانی معذوری کے حوالے سے ایک عالمی سربراہی کانفرنس منعقد کی تھی۔ اس ایونٹ کے شریک میزبان کئی بین الاقوامی تنظیمیں تھیں۔ کانفرنس میں بین الاقوامی تنظیموں اور حکومتوں کی جانب سے کئی اہم وعدے کیے گئے۔ امید ہے کہ ان کی پاسداری کی جائے گی۔ اس عالمی سربراہی کانفرنس کا ایک نہایت اہم حصہ مشمولہ تعلیم تھی: یعنی تعلیم تمام بچوں کے لیے۔

ویسے تو ہمارے پاس معذور بچوں کے حوالے سے کافی ڈیٹا موجود نہیں ہے اور میں اس نکتے پر واپس بھی آؤں گا، مگر ہمارے اندازے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 10 سے 15 فیصد بچے کسی نہ کسی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔ ہم ہمہ گیر تعلیم، یا مشمولہ تعلیم، یا سب کے لیے تعلیم کیسے یقینی بناسکتے ہیں اگر ہم یہ یقینی نہیں بناسکتے کہ یہ 10 سے 15 فیصد بچے بھی اسکولوں میں ہوں، اور انہیں اتنی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرسکیں۔

پڑھیے: ووٹ دیا اب تعلیم دو

مختلف تحقیقیں یہ واضح طور پر دکھاتی ہیں کہ چیلنجز کو ابتداء ہی میں شناخت کرلینا اہم ہے۔ جلد از جلد شناخت اور تشخیص سے ان بچوں کے لیے مناسب امداد کی تیاری میں مدد ملتی ہے۔ تاخیر سے شناخت نہ صرف مسئلے کی درستی مشکل بنا دیتی ہے بلکہ تاخیر سے کی جانے والی مداخلتوں کا اثر بھی محدود ہوتا ہے۔ اس سے شناخت اور تشخیص کے حوالے سے ڈیٹا کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ہمیں جتنا جلدی ہوسکے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کہی کوئی بچہ کسی چیلنج کا شکار تو نہیں ہے۔ فی الوقت ہمارے پاس کئی ممالک بشمول پاکستان میں ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں جو یہ شناخت کر سکے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کتنے بچے چیلنجز کے شکار ہیں اور انہیں کس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہمارے پاس سرویز سے حاصل ہونے والا تھوڑا سا ڈیٹا ہے جس سے ہم اندازہ تو لگا سکتے ہیں مگر یہ یقینی بنانے کے لیے کافی نہیں کہ ہم چیلنجز کا سامنا کر رہے تمام بچوں کی شناخت کر سکیں۔

گزشتہ 2 دہائیوں میں صوبائی حکومتوں نے تعلیمی شعبے میں بہتر ڈیٹا کے لیے کافی سرمایہ کاری کی ہے۔ اب ہمارے پاس انفراسٹرکچر کی موجودگی، اساتذہ کی دستیابی و حاضری، اور تعلیمی سہولیات کے نتائج کا زیادہ بہتر اندازہ موجود ہے۔ مگر معذور بچوں کے حوالے سے ڈیٹا اکھٹا کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں، آیا وہ اسکولوں میں ہیں یا نہیں، اور انہیں کس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسے جلد سے جلد تبدیل ہونا ہوگا۔

اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے طریقے موجود ہیں جنہیں ڈیٹا اکھٹا کرنے کے موجودہ سسٹمز میں کم سے کم لاگت کے ساتھ شامل کیا جاسکتا ہے، جس سے ہم معذور بچوں کے حوالے سے ڈیٹا اکھٹا کرسکتے ہیں، کم از کم ان بچوں کے لیے تو ضرور جو پہلے سے ہی اسکولوں میں موجود ہیں۔

تمام صوبوں کے محکمہ ہائے خصوصی تعلیم محکمہ ہائے تعلیم سے الگ ہیں اور سبھی چھوٹے، فنڈز کی کمی کے شکار، اور صوبائی بیوروکریسیز میں دیوار سے لگے ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ معذوری کے شکار بچوں کو الگ تھلگ اداروں میں پڑھانے کے بجائے مرکزی دھارے کے اسکولوں میں پڑھانا چاہیے۔ یہ سب بچوں کے لیے بہتر ہے۔ کچھ ممالک میں ابھی بھی اس حوالے سے بحث ہے کہ شدید چیلنجز کے شکار بچوں کو الگ اداروں میں پڑھایا جائے، مگر معمولی یا درمیانے درجے کے چیلنجز کے شکار بچوں کو مرکزی دھارے کے اسکولوں میں پڑھانا نہایت اہم ہے۔

پڑھیے: یونیورسٹی اساتذہ کی ترقیوں اور تقرریوں کا ’کھیل‘

کچھ چیلنجز کی تشخیص رحمِ مادر میں ہی کی جاسکتی ہے۔ کچھ چیلنجز پیدائش کے بعد کے عرصے میں سامنے آتے ہیں جبکہ کچھ عمر کے ابتدائی سالوں میں۔ ہمیں ایسے سسٹمز کی ضرورت ہے جہاں چیلنجز کو جلد از جلد شناخت کیا جاسکے۔ اس کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکر نیٹ ورک کو مناسب انداز میں تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی بچے پر کسی قسم کے چینلج کے شکار ہونے کا شبہ ہو، تو اسے تشخیص کے لیے میڈیکل سسٹم بھیجا جانا چاہیے۔ ابتدائی تشخیص کا انتظام تحصیل سطح پر کیا جاسکتا ہے جہاں ہمارے پاس جنرل فزیشن دستیاب ہوتے ہیں۔ زیادہ خصوصی تشخیص ضلعی سطح پر کی جاسکتی ہے جہاں پہلے ہی اس کام کے لیے اسپیشلسٹ دستیاب ہوتے ہیں۔

تشخیص کے بعد ہمارے پاس بچوں کی بحالی کے لیے ضروری سسٹمز ہونے چاہیئں۔ ایک بار پھر یہ بات دہراؤں گا کہ، زیادہ تر بچوں کو مرکزی دھارے کے اسکولوں میں ہی سنبھالا جاسکتا ہے۔ اساتذہ کی اس حوالے سے تربیت ہونی چاہیے کہ (الف) وہ ایسے بچوں کی شناخت کریں جو کسی چیلنج کے شکار ہوں، تاکہ انہیں تشخیص کے لیے میڈیکل سسٹم کی جانب بھیجا جاسکے اور (ب) یہ کہ وہ ایسے بچوں کو مؤثر مدد فراہم کریں۔

اساتذہ کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام بچوں کے ساتھ منصفانہ سلوک ہو، کسی کو ہراساں نہ کیا جائے نہ ان پر کوئی ہاتھ اٹھائے، اور تمام بچوں کے پاس مؤثر شمولیت کے لیے مواقع موجود ہوں۔ وہ بچے جو چیلنجز کے شکار ہوتے ہیں، انہیں اضافی مدد و حمایت کی ضرورت بھی پڑے گی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اساتذہ کی جانب سے اضافی وقت اور کوشش کی صورت میں ہو، ہم جماعتوں یا ٹیچنگ اسسٹنٹس کی جانب سے مدد کی صورت میں ہو۔

پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے

ہوسکتا ہے کہ ہمیں اضافی امدادی مواد کی ضرورت بھی پڑے۔ مگر مدد کے ان زیادہ تر طریقوں کی اساتذہ کی بھرتی سے قبل یا سروس کے دوران انہیں تربیت دی جاسکتی ہے۔ ان میں سے کچھ پہلے ہی بیچلرز یا ماسٹرز سطح کی تعلیمی ڈگریوں میں موجود ہوتے ہیں اور اضافی مواد کی فراہمی کا انتظام اسکولوں کے موجودہ غیر تنخواہی بجٹس میں آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔

سسٹم کی سطح پر ہمیں نصاب، نصابی کتب اور امتحانی نظام میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ یہ صوبائی سطح پر ہونے والے کام ہیں۔

مگر مندرجہ بالا تمام تر اقدامات کے لیے موجودہ صوبائی محکمہ ہائے تعلیم اور محکمہ ہائے خصوصی تعلیم کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور محکمہ ہائے صحت سے رابطے کی ضرورت ہے۔

فی الوقت خصوصی تعلیم کے محکمے نہایت الگ تھلگ اور دیوار سے لگے ہوئے ہیں۔ ان کے بجٹ محدود اور ان کے پاس اسکولوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے اساتذہ و ماہرین کا مرکزی دھارے کے اسکولوں اور اساتذہ سے زیادہ میل جول نہیں ہوتا۔ مرکزی دھارے کے اساتذہ کی تربیت میں ان ماہرین سے کوئی رائے نہیں لی جاتی۔ خصوصی تعلیم کے محکموں سے نصاب، نصابی کتب، یا امتحانی نظام کو مرتب کرتے ہوئے مشورے نہیں لیے جاتے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے منشوروں نے تعلیم اور معذورین کے حوالے سے مخصوص اور اہم وعدے کیے ہیں۔ امید ہے کہ اگلے 5 سالوں میں ہم مشمولہ تعلیم کے حوالے سے اہم پیش رفت دیکھیں گے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں