لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے ہی یہ دعوٰی کیا کہ انہوں نے بالترتیب پنجاب اور خیبرپختونخوا کے تعلیمی میدان میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ کسی حد تک یہ دونوں درست بھی ہیں۔ ان صوبوں کے تعلیمی نظام میں چند بڑی اصلاحات کی گئی ہیں۔

تاہم چند باتوں کا واضح ہونا بھی ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ کئی ساری اصلاحات گنوائی جاسکتی ہیں اور تعلیمی نظام کے لیے اقدامات کے اضافے کو تو ظاہر کیا جاسکتا ہے مگر ان اقدامات سے حاصل ہونے والے نمایاں فوائد یا نتائج کو پیش کرنا مشکل ہے۔ مثلاً تعلیمی اداروں میں داخلوں میں اور علمی اضافہ دراصل دونوں جماعتوں کے لیے نتائج کے طور پر 2 بڑی اہمیت کے حامل مقاصد شمار ہوتے ہیں، مگر یہ دونوں جماعتیں ان 2 مقاصد کے حوالے سے اس قدر بہتر نظر نہیں آتیں جس قدر انہوں نے دعوے کیے ہیں۔ جبکہ داخلوں اور علمی لحاظ سے نتائج کے رجحانات کی نشاندہی کرنا تو اور بھی مشکل ہے۔

دوسری بات یہ کہ دونوں میں سے کون سا صوبہ زیادہ بہتر رہا، یہ واضح طور پر کہنے کے لیے ہم صوبوں کی کارکردگی کو الگ الگ نہیں دیکھ سکتے۔ ہمارے میکرو اعداد ایسا کرنے میں مدد نہیں دیں گے جبکہ اگر وہ بہتر کارکردگی کا کوئی دعوٰی کرتے بھی ہیں تو وہ بھی بڑے ہی ناقابلِ اعتبار شواہد کی بنیاد پر۔

تیسری بات، جو شاید دونوں جماعتوں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو اور شاید انہیں پسند بھی نہ آئے، وہ یہ حقیقت ہے کہ دونوں صوبوں میں تعلیمی شعبے میں جو اصلاحات لائی گئی ہیں وہ ایک دوسرے سے کافی مماثلت رکھتی ہیں۔ ممکن ہے کہ دونوں حکومتوں کے ساتھ ایک ہی طرح کے ‘بہترین عوامل‘ اپنانے کا مشورہ دیا گیا ہو۔ شاید دونوں نے ایک دوسرے کی ’کامیابی‘ سے سیکھ کر اقدامات کی نقل یا ان کی پیروی کی ہو یا پھر تعلیمی اصلاحات پر مشورہ دینے والے اور حتیٰ کہ ان اصلاحات میں سے چند کی مالی معاونت کرنے والے (ڈی ایف آئی ڈی، ورلڈ بینک وغیرہ) بھی ایک ہوں۔

پڑھیے: یونیورسٹی اساتذہ کی ترقیوں اور تقرریوں کا ’کھیل‘

میں اپنی گفتگو کا دائرہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) تک محدود رکھوں گا، جبکہ سندھ اور پیپلزپارٹی کی بات نہیں کروں گا کیونکہ سندھ میں لائی گئیں اصلاحات اگرچہ ایک ہی نوعیت کی تھیں مگر ان پر دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز میں عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں صرف دوڑ میں آگے رہنے والوں کی بات کر رہا ہوں۔ مگر یہاں کی جانے والی بات کا اطلاق پیپلزپارٹی کی سربراہی میں ہونے والی اصلاحات پر بھی ہوتا ہے۔

اساتذہ کی بھرتی کے مرحلے کو زیادہ ’معروضی‘ اور کرپشن سے پاک بنانے کے لیے تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ اساتذہ کی تعداد، تنخواہیں اور گریڈز کو بہتر کیا گیا ہے اور ٹیچر ٹریننگ میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ دونوں صوبوں میں تقریباً ایک ہی طرح ایسا ہوا ہے۔

ٹیچر اور اسکول سطح پر مانیٹرنگ اور جائزہ لینے کے نظام متعارف کرائے گئے۔ مانیٹرز طلباء اور اساتذہ کی اسکول میں حاضری، انفرااسٹریکچر کی فراہمی اور کلاس کے اندر کی کارکردگی جاننے کے لیے چند دیگر طریقوں کی مدد سے اعداد اکٹھا کرتے ہیں۔ دونوں صوبوں میں اعداد کو جمع کرنے اور انہیں استعمال کرنے کے طریقوں میں کہیں کہیں فرق ہے مگر دونوں صوبوں میں مانیٹرنگ اور جائزہ لینے کے سسٹمز ایک جیسے ہی ہیں۔

دنوں صوبوں میں انفرا اسٹریکچر کی فراہمی ’اصلاحات‘ کا بڑا حصہ رہا ہے، جس میں کمروں، باتھ رومز کی تعمیرات، پانی و بجلی کی فراہمی اور باؤنڈری وال بنانا شامل ہے۔

حتیٰ کہ ’چھوٹے‘ اصلاحاتی اقدامات میں مماثلت پائی گئی۔ دونوں صوبوں میں امتحانات کے نظام کو ‘ٹھیک‘ کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ دونوں صوبوں میں سرکاری شعبے میں زیرِ تعلیم تمام طلبا کو نصاب فراہم کی جا رہا ہے، اسکالرشپ دی جا رہی ہیں اور طلباء بالخصوص طالبات کے لیے وظیفہ پروگرامز بھی چلائے جا رہے ہیں اور دونوں اپنی توجہ اضلاع پر مرکوز کیے ہوئے ہیں جو تعلیمی کارکردگی میں پستی کا شکار رہے تھے۔

کہیں کہیں دونوں میں تفریق بھی پائی گئی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے پاس ایک ایسا روڈ میپ اور اعداد و شمار جمع کرنے کا ایسا طریقہ تھا جس نے تعلیمی مسائل کی پروفائل کو بلند ترین سطح پہنچا دیا۔ کے پی میں اس طریقے کو نہیں اپنایا گیا۔ دانش اسکول پنجاب میں تو کھولے گئے مگر کے پی میں نہیں کھولے گئے۔ پنجاب نے بھی 5ویں اور 8ویں جماعت کے صوبائی سطح پر امتحانات کرانے کے لیے پنجاب امتحانی کمیشن کو متعارف کروایا۔ کے پی میں ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مگر مماثلات کے مقابلے میں یہ تفریقات زیادہ نمایاں نہیں ہے۔

پڑھیے: انگلش اور دیگر زبانیں کیسے سیکھی جائیں؟

اب چونکہ ہم انتخابات کے دور سے نکل چکے ہیں لہٰذا جماعتیں آنے والے سالوں کے لیے اپنی پالیسیاں مرتب دینے میں مصروف ہوجائیں گی۔ جن سوالات پر سوچنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ: گزشتہ 5 برسوں کی پالیسیاں زیادہ نتیجہ خیز ثابت کیوں نہیں ہوئیں؟ کیوں اب بھی لاکھوں بچے، بالخصوص مڈل اور ہائی اسکول کی سطح پر، اسکولوں سے باہر ہیں؟ کیوں علمی نتائج زیادہ مضبوط رجحانات ظاہر نہیں کر رہے؟ آیا مسلم لیگ ن پنجاب سے پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں بہتر رہی یا پھر کون کس سے بہتر رہا، اس سوال سے زیادہ ضروری مذکورہ سوالات ہیں۔ لوگ نتائج اور دلچسپی رکھتے ہیں دوسر ے سے زیادہ کارکردگی میں نہیں۔

مگر حکومتوں نے دعوی کیے کہ انہوں نے تعلیم پر اربوں روپے خرچ کیے، کہ انہوں نے غیرمعمولی حد تک تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا(اگرچہ حقیقت میں اضافے برائےنام تو نہیں مگر کافی معتدل ضرور تھے)۔تو پھر نتائج اتنے متاثرکن کیوں نہیں ہیں؟ اور اگر ان جماعتوں کو ایک بار پھر حکمرانی کا موقع ملتا ہے تو اس بار وہ کیا نیا کریں گی؟ کیا وہ ایسی ہی مزید پالیسیوں کو اختیار کریں گی یا پھر وہ یہ جائزہ لیں گی کہ آخر ان کی گزشتہ پالیسیاں اس قدر کامیاب کیوں نہ ہوسکیں جتنی انہیں توقع تھی؟

پارٹی منشور میں تمام تر مقاصد کے ساتھ مختصراً بیانات اور آئندہ کے پالیسی ایکشن کو ہیڈلائن نیوز کی صورت میں شامل کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر پالیسیوں کو بلٹ پوائنٹ (نکات) کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔ اس بار بھی یہی حال رہا۔ پارٹی منشور پڑھنے کے باوجود بھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آخر یہ جماعتیں مستقبل کو لے کر کیا سوچ رہی ہیں۔ تاہم یہ بات صاف ہوگئی کہ جب یہ اقتدار میں آئیں تو اپنی زیادہ تر پالیسیوں کو ہی جاری رکھیں گی کیونکہ ان کے نزدیک ان پالیسیوں نے ان کے صوبوں میں بہتر نتائج دیے، لہٰذا آپ یہ توقع نہ رکھیں کہ اگلی مدت میں گہرائی کے ساتھ پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے گا، اور جائزہ نہ لینے کی وجہ سے مایوس کن نتیجہ برآمد ہوگا۔

قابل رسائی، معیاری، یکساں اور منصفانہ تعلیم کے مسائل معمولی نہیں ہیں اور ان مسائل کی وجہ سے لاکھوں بچے متاثر ہو رہے ہیں:نہ صرف ان بچوں کو جو اسکولوں میں نہیں ہیں بلکہ ان بچوں کی ایک بڑی اکثریت کو بھی جو اسکولوں میں موجود ہیں۔ اگر بڑی پارٹیاں یہ جائزہ نہیں لے سکتی یا لینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران ان کے اقدامات سے متوقع نتائج برآمد کیوں نہیں ہوئے تو پھر ہم کس طرح مستقبل کے لیے پالیسیوں کو تبدیل کرسکتے ہیں اور تازہ سوچ اور تازہ خیالات کی راہ ہموار کرسکتے ہیں؟

یہ مضمون 27 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں