افغان حکومت کی جانب سے گزشتہ روز مشرقی علاقے میں واقع شہر غزنی پر کنٹرول حاصل کرنے کے دعوے کے بعد بھی شہر میں طالبان جنگجوؤں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے اتوار کو بھی شہر میں سرکاری دفاتر پر حملے کیے اور چند سیکیورٹی چیک پوائنٹس پر بھی قبضہ کیا جبکہ کابل کی جانب سے سیکیورٹی اہلکاروں کے تازہ دم دستوں کی تعیناتی کا سلسلہ بھی سست روی کا شکار ہے۔

مقامی افراد کے مطابق غزنی میں رہائش پذیر افراد اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ متعدد افراد جنگ سے بچ کر کہیں اور منتقل ہورہے ہیں۔

غزنی صوبائی کونسل کے نائب سربراہ امان اللہ کامرانی کا کہنا تھا کہ صورتحال انتہائی خوفناک ہے۔

مزید پڑھیں: غزنی پر طالبان کی قبضے کی کوشش پر امریکا کا جوابی فضائی حملہ

انہوں نے کہا کہ ’غزنی میں صرف پولیس ہیڈ کوارٹرز، گورنر کا دفتر اور چند محکمے افغان فورسز کے کنٹرول میں ہیں جبکہ باقی تمام عمارات پر طالبان کے جنگجوؤں کا قبضہ ہے۔

افغانستان کے نشریاتی ادارے طلوع نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں غزنی کے رہائشی رحمت اللہ اندر نے بھی اسی طرح کی صورتحال بتائی اور کہا کہ شہر کے زیادہ تر علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان جنگجوؤں کے مقابلے میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد کم ہے اور ہم نے طالبان کی جانب سے کبھی اتنے بڑے پیمانے پر حملے نہیں دیکھے‘۔

جنگجوؤں کی جانب سے ٹیلی کمیونیکیشن کے ٹاور کو نشانہ بنائے جانے کے بعد سے علاقے میں موبائل سروس بھی معطل ہوگئی جبکہ غزنی میں چند میڈیا کے دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے علاقے میں معلومات کی تصدیق بھی مشکل ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ جمعرات کو رات گئے طالبان جنگجو کئی راستوں سے غزنی میں داخل ہوئے اور میڈیا دفاتر اور مواصلاتی ٹاورز پر حملے کرکے انہیں نقصان پہنچایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کا حملہ، نیٹو کی غلطی سے پولیس سمیت 17 ہلاک

بعد ازاں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے کہا کہ 'فوج کی تازہ کمک آنے کے بعد اہلکاروں کے حوصلے بلند ہوئے اور انہوں نے غزنی کے شمال میں طالبان جنگجوؤں کو پیچھے دھکیل دیا، جس کے بعد وہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے‘۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں غزنی کے حالات کے حوالے سے شکوک و شبہات دور کرتے ہوئے کہا کہ 'صورتحال اب مکمل قابو میں ہے اور شہر کو کوئی خطرہ نہیں ہے'۔

افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل مارٹِن او ڈونیل نے بھی اس سے ملتا جلتا بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'حقیقت یہی ہے کہ طالبان شہر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے اور ان کی لڑنے کی طاقت افغان و امریکی افواج سے قدرے کم تھی، جس کے باعث انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا'۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان وزارت داخلہ اور امریکی فوج کے ترجمان کے دعوے درست ثابت نہیں ہوئے اور اتوار کو بھی غزنی شہر کے مختلف علاقوں میں شدید جھڑپیں جاری رہیں جبکہ اکثر سرکاری اور اہم عمارات پر طالبان جنگجوئوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں