متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی اتحادی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا 14 اگست نہ منانے کا فیصلہ ذاتی ہے، ہم یہ دن ضرور منائیں گے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران سراج الحق نے کہا کہ 'ہم اپوزیشن کے ساتھ ضرور ہیں مگر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی کسی ڈکٹیشن کا حصہ نہیں بنیں گے اور ہم اپنی پالسیوں کو لے کر چلیں گے۔'

انہوں نے دونوں جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اگر نظام کو بہتر کرتے تو آج اپوزیشن کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔'

سراج الحق نے مولانا فضل الرحمٰن کے 14 اگست نہ منانے کے اعلان کے حوالے سے کہا کہ 'ہم 14 اگست منائیں گے، فضل الرحمٰن چودہ اگست نہ منائیں یہ ان کا اپنا فعل ہے۔'

مزید پڑھیں: ہم 14 اگست منائیں گے، مولانا فضل الرحمٰن نے درست کہا، عبدالغفور حیدری

خیال رہے کہ چند روز قبل اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے احتجاج کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ 'ہم 14 اگست کو یوم آزادی کے بجائے یوم جدوجہد منائیں گے'، جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

امیر جماعت اسلامی کا پریس کانفرنس کے دوران مزید کہنا تھا کہ 'ریاستی اداروں نے جو نیک نامی امن قائم کرکے کمائی وہ انتخابات میں ختم کردی اور الیکشن میں ریاستی ادارے کھل کر سامنے آئے ہیں۔'

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ 'عمران خان کا امتحان اب شروع ہوا ہے، ہم چاہتے ہیں عمران نے قوم سے جو وعدے کیے ہیں وہ پورے کریں۔'

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف، فضل الرحمٰن کے خلاف غداری کے مقدمے کی درخواست

ان کا کہنا تھا کہ 'احتساب سب کا ہونا چاہیے کوئی قانون سے بالاتر نہیں جبکہ ملک میں اسلامی نظام نفاذ کرنے کے لیے جہدوجہد جاری رکھیں گے۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Azeem Aug 13, 2018 09:06pm
سراج الحق صاحب نے بالکل درست موقف اپنایا ہے، قومی رہنماؤں سے ایسی توقع کی جانی چاہیے، چودہ اگست سیاسی رسہ کشی کا نہیں بلکہ قومی یکجہتی کا دن ہے، اس قومی دن اور قومی عید کے طور منایا جانا چاہیے۔ جہاں تک انہوں نے عمران خان کا امتحان شروع ہونے کی بات کی ہے تو یہ بات بھی پورح طرح درست ہے، کیونکہ اصل امتحان حکومت میں آنے کےبعد ہی شروع ہوتا۔ لیکن یہ بات نہ بھولیں کہ اپوزیشن بھی حالت امتحان ہوتی ہے اور حکومت کے ساتھ اس کا بھی امتحان ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اچھے کاموں میں حکومت کا ہاتھ بٹائے اور قومی مفادات کے منافی کاموں کی کھل کر مخالفت کرے، اور جہاں وہ سمجھتی ہے کہ کام صحیح طور پر انجام نہیں پارہا وہاں روڑے اٹکانے کے بجائے حکومت کو درست مشورے فراہم کرے تاکہ معاملات ملک و قوم کے مفادت میں آگے بڑھ سکیں۔ کیا ہارنے والی مذہبی اور سیاسی جماعتیں ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پارٹی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کی روایت ہمارے ہاں موجود ہے؟ رہی بات اداروں کی اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اداروں کو اپنے حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اگر ادارے اپنی حدود اور اختیارات میں رہیں گے تو ملک ترقی کرے گا، جمہوریت مستحکم ہوگی اور عام آدمی سکون سے زندگی گزار سکے گا۔