قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران قائد ایوان کے انتخابات میں شکست پانے والے امیدوار اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’اسمبلی دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں بنی پورے ملک میں دھاندلی زدہ الیکشن کا شور ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2018 کے عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع انتخابات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ دار ی نبھانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔

انہوں نے پارلیمنٹ فلور پر اسپیکر اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’یہ کیسا الیکشن تھا کہ رات 11 بجے ریزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) بند کرادیا گیا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ کیسا الیکشن تھا کہ جہاں دیہاتوں کے نتائج پہلے آئے اور شہروں کے نتائج 48 گھنٹے کی تاخیر کے بعد آئے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کیسا الیکشن تھا کہ جس میں پورے پاکستان میں 16 لاکھ ووٹ مسترد کیے گئے‘۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ ’ ہماری جماعت کے لوگ دھاندلی کے باوجود پاکستان کی محبت میں ایوان میں آئی ہے‘۔

انہوں نے انتخابی نتائج کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ 33 حلقوں میں مسترد ووٹ جیت کے مارجن سے زیادہ تھے اور فارم 45 کی جگہ پرچیاں دی گئیں، پاکستان میں خوشحالی چاہتے ہیں تودھاندلی کا پتہ لگانا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم دھاندلی کرنے والوں کو بھاگنے نہیں دیں گے، ہم بطور احتجاج ایوان میں آئے ہیں اور ووٹ کی چوری کا حساب لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ پرلعنت نہیں دیں گے اور نہ ہی ہم اس پر حملہ کریں گے تاہم انہوں نے مطالبہ کیا کہ دھاندلی میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

آخری میں انہوں نے حکومتی جماعت کو باور کرایا کہ ’اگر ہمارے سوالات کا جواب نہ آیا تو اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر نکلیں گی‘۔

بلاول بھٹو کا انتخابات میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ

قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اپنی زندگی کی پہلی تقریر کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’2018 کے انتخابات نے ہمیں بتایا کہ ہم اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتے، پری پول دھاندلی سے الیکشن کو متاثر کیا گیا اور الیکشن کے عمل میں مختلف مراحل پر بدانتظامی ہوئی۔‘

انہوں نے انتخابات میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات سے قبل اور بعد میں دھاندلی کی گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کو فروغ دیا، ہم انسانی حقوق کی فراہمی اور آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہیں، قوم مسائل کے حل کے لیے منتخب وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہی ہے اور ہم دیکھیں گے وزیر اعظم عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرتے ہیں یا نہیں۔‘

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی معیشت بدترین صورتحال کا شکار ہے اور ملک کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مسائل کا سامنا ہے، مجھے یقین ہے حکومت پاکستان کی امیج سازی کے لیے کام کرے گی۔‘

انہوں نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان ایک جماعت کے نہیں پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں، وہ ان کے بھی وزیر اعظم ہیں جن کو انہوں نے ’زندہ لاش‘ اور ’گدھا‘ کہا، جبکہ یقین ہے عمران خان نفرت انگیز اور انتہا پسندی کی سیاست سے گریز کریں گے اور اگر انہوں نے عوامی مسائل پر توجہ دی تو ہم ان کا ساتھ دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عمران خان نے اس ایوان اور آئین کی تکریم نہ کی تو ہم کڑی اپوزیشن کریں گے، پیپلز پارٹی ایوان کی عزت اور آئین پر سمجھوتہ نہیں کرے گی اور ساری جماعتوں کے ساتھ مل کر ایوان کی عزت میں اضافہ کریں گے۔‘

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ’افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ میری اسمبلی میں پہلی تقریر ہے جس میں شدید احتجاج اور شور شرابہ کیا گیا، احتجاج جمہوری حق ہوتا ہے لیکن (ن) لیگ اور پی ٹی آئی نے آج جو ایوان میں کیا اسے عوام پسند نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ سپریم ادارہ اور تمام اداروں کی ماں ہے جس کا رکن بننے پر خوشی ہے اور میرے لیے اس ایوان کا رکن بننا اعزاز کی بات ہے۔‘

بلاول بھٹو نے ہارون بلور اور سراج رئیسانی سمیت انتخابی مہم کے دوران جاں بحق ہونے والے تمام افراد کو خراج عقیدت پیش کیا اور انتخابات میں دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

بعد ازاں شباز شریف نے پارلیمنٹ سے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا این آر او کے حوالے سے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’کوئی این آر او نہیں مانگا جارہا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں