وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کارکنوں کا شکریہ ادا کیا اور معاشی صورت حال پر بات کی اور پاکستان کو ریاست مدینہ کے طرز پر چلانے کے عزم کا اظہار کیا۔

پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) سے تلاوت کلام پاک اور قومی ترانے کے بعد وزیراعظم پاکستان نے قوم سے اپنا پہلا خطاب شروع کیا۔

وزیرِاعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے اپنے کارکنوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ 22 سال قبل جن ساتھیوں نے میرے ساتھ سفر شروع کیا تھا ان کو یاد کر رہا ہوں جن میں خاص کر احسن رشید اور سلونی بخاری جو زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ میں آپ سب کا شکر گزار ہوں کیونکہ آپ کے بغیر میں یہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قائداعظم نے ایک مشن کے طور پر سیاست کا آغاز کیا تھا اور میں نے پاکستان کو علامہ اقبال کے خواب کے مطابق بنانے کے لیے سیاست کاآغاز کیا لیکن سیاست کو کبھی کیرئیر نہیں سمجھا۔

پاکستان کودرپیش معاشی چیلنجز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان پر 28 ہزار ارب روپے کا قرضہ ہے اور آج حالت یہ ہے کہ قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے بھی قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بدقمستی سے آج پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہے جہاں بچے گندہ پانی پینے سےمرتے ہیں، پاکستان کے 45 فیصد بچوں کو صحیح خوراک نہیں مل رہی جس کے باعث بچوں کی ذہنی نشونما نہیں ہوتی۔

وزیراعظم کو حاصل سہولیات پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں وزیراعظم کے لیے 5 سو سے زائد ملازم، 35 بلٹ پروف گاڑیاں ہیں اور وزیرہاؤس 1100 کینال پر مشتمل ہے جبکہ قوم مقروض ہے اور دوسری طرف صاحب اقتدار افراد ہیں جن کا طرز زندگی برصغیر میں انگریزوں جیسا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی آدھی آبادی کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے جب تک غریبوں کا نہیں سوچا جائے گا ملک کی حالت نہیں بدلے گی اس لیے ہمیں اپنی سوچ اور رہن سہن بدلنا ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک میں ساتویں نمبر پرآگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مدینہ کی ریاست میں لیڈر صادق اور امین ہوتا تھا اور یہ بات آج مغرب میں ہے برطانیہ کے وزیر اعظم کو جھوٹ بولنے پر نکال دیا گیا اور وہاں لیڈر عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقدامات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس میں 2 ملازم اور 2 گاڑیاں رکھوں گا، 2 گاڑیاں اس لیے کہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے اور مجھے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ میرے لیے سیکیورٹی کا مسئلہ ہے اس لیے میں یہاں رہوں گا ورنہ میں بنی گالا میں رہتا۔

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس کی دیگر گاڑیاں نیلام کریں گے۔

'وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنائیں گے'

گورنر ہاؤسز کے بارے میں انھوں نے کہا کہ گورنرہاؤسز میں ہمارا کوئی گورنر نہیں بیٹھے گا جس کے لیے دانشوروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے جو ہمیں بتائے گی کہ کیا کرنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس کو اعلیٰ ترین یونیورسٹی بنائیں گے جہاں تحقیق ہوگی اور دنیا سے بڑے بڑے اسکالرز کو بلائیں اور اعلیٰ طرز کی یونیورسٹی ہوگی۔

عمران خان نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسکت فورس بنے گی جو یہ طے کرے گی کہ ہم کیسے اپنے خرچے کم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بچت سے حاصل ہونے والی رقم غریب اور نظر انداز کیے گئے طبقے پر خرچ کرین گے تاکہ وہ بھی معاشرے کے دوسرے شہریوں کی طرح اوپر آسکیں اور ملکی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

انھوں نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ قومیں ایسے نہیں چلتیں جاپان وغیرہ نے جب قرض لیا تھا تو وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے اور قرض بھی واپس کردیا۔

ایف بی آر ٹھیک کریں گے

عمران خان نے کہا کہ سب سے پہلی کوشش ہوگی کہ ایف بی آر کو ٹھیک کریں گے اس کے بعد عوام کو اعتماد دیں گے کہ آپ کے ٹیکس کی حفاظت میں کروں گا جس کے لیے مہم چلائیں گے اور ہم ہر روز بتائیں گے کہ آپ کے ٹیکس کو کہاں خرچ کیا ہے اس لیے آپ ٹیکس ادا کریں جو قومی ذمہ داری ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے بچوں کو تعلیم دینی ہے اور آپ ٹیکس کو یہ سمجھ کر دیں کہ اللہ کو دے رہے ہیں۔

'چوری کا پیسہ واپس پاکستان لائیں گے'

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا کام ہم یہ کریں گے کہ جو پیسے چوری ہو کر باہر گئے ہیں ان کو واپس لانے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنائیں گے، امریکی تھینک ٹینک نے کہا کہ یہاں سے بڑا حصہ پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر جارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے لیکن جو پیسہ باہر لے کر جاتا ہے وہ میرا دشمن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی ایسے لیڈر کو ووٹ نہ دیں جس کا سرمایہ بیرون ملک موجود ہے کیونکہ جب اس کا پیسہ باہر ہوگا تو وہ ملک کا مخلص نہیں ہوسکتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم برآمدات بڑھانے کی کوشش کریں گے تاکہ یہاں سرمایہ کاری بڑے گی اور چھوٹے سرمایہ کار کو جو رکاوٹیں ہیں ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے تاکہ روزگار ملے گا۔

سمندر پار پاکستانیوں کے لیے پیغام

عمران خان نے کہا کہ سفارت خانوں کو پیغام دیں گے کہ جو پاکستانی باہر کام کررہے ہیں ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور جو پاکستانی بیرون ملک جیلوں میں قید ہیں ان کی صورت حال جاننے کا کہیں گے اور ان کی مدد کریں گے تاکہ وہ خود کو مجبور نہ سمجھیں۔

سمندر پار پاکستانیوں کو پیغام دیتے ہوئے نومنتخب وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت ہمیں ڈالرز کی ضرورت ہے اور اس مشکل وقت کو گزارنے کے لیے آپ کی مدد کی ضرورت ہے اور آپ مدد کریں۔

انھوں نے کہا کہ بیرون ممالک سے پیسہ بھیجنے والوں کو ہر ممکن سہولت دیں گے۔

'کرپشن کو روکیں گے'

انھوں نے کہا کہ ہم کرپشن کو روکنے کے لیے ہم پورا زور لگائیں گے اور نیب کے چیئرمین سے ملاقات کروں گا اور انھیں پوری مدد کریں گے اور طاقت بنانے کے لیے مدد کریں گے اس کے ساتھ ساتھ ہم قانون پاس کریں گے جس کے تحت جو سرکاری ملازم کرپشن کی نشاندہی کرے گا اور اس سے جو پیسہ واپس آئے گا اس سے مذکورہ ملازم کو حصہ دیں گے جس کے لیے قانون بنائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایف آئی اے کے ذریعے میں خود نظر رکھوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ اس لیے خود رکھی ہے تاکہ ایف آئی اے پرنظر رکھوں۔

'کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالیں گے تو یہ چیخیں گے'

انھوں نے واضح کیا کہ یا یہ ملک رہے گا یا یہ کرپٹ لوگ رہیں گے اور جب ہم یہ کریں گے تو یہ سب چیخیں گے اس لیے آپ نے ساتھ دینا ہے۔

انصاف کا نظام

وزیراعظم نے کہا کہ ہم چیف جسٹس کے ساتھ مل کر بیٹھ کر طے کریں گے اور انصاف کے نظام کو ٹھیک کریں گے تاکہ مقدمات ایک سال سے زیادہ عرصے نہ لگے اور یہی کام ہم نے خیبر پختونخوا (کے پی) میں کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر کئی سال گزر جاتے ہیں اور لوگ مرجاتے ہیں لیکن ان کے مقدمات ختم نہیں ہوتے اس لیے اس نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس سے انھوں نے اپیل کیا کہ بیواؤں کے مقدمات کو زیادہ اہمیت دے کر فوری طور پر نمٹائیں کیونکہ ان پر مضبوط لوگ ظلم کرتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ میرا عزم ہے کہ کمزور طبقے کو تحفظ فراہم کریں گے۔

پولیس اصلاحات

اپنی ترجیحات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم پولیس میں اصلاحات لائیں گے کیونکہ یہی ہم کے پی میں کرچکے ہیں اور ناصر درانی کو ذمہ داری دے رہے ہیں کہ پنجاب کی پولیس کو ٹھیک کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کے پی میں پولیس کا نظام ٹھیک کیا ہے اس طرح پورے ملک میں کریں گے۔

عمران خان نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اس حوالے سے بھی کام کریں گے۔

تعلیم

انھوں نے کہا کہ تعلیم پر توجہ دیں گے اور جب تک سرکاری اسکولوں کو ٹھیک نہیں کریں گے تو تعلیم کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا، مجھے پتہ ہے کہ تنخوادار طبقہ کس طرح اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اس لیے سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتر کرنا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں ان کو نظام میں لائیں گے اور سوا دو کروڑ جو باہر ہیں ان کےساتھ ظلم نہیں ہونے دیں گے اور ان کو تعلیم دیں گے۔

مدارس کے طلبا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدرسوں سے بھی بچے انجینئر، ڈاکٹر اور جرنیل بنیں جس کے لیے ہمیں نظام بنانا ہے۔

صحت

عمران خان نے صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے کے حوالے سے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں کی انتظامیہ کو نہیں بدلیں گے تب تک معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا اس لیے میں نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے جو ملک میں جاکر دیکھیں گے اور تجاویز دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور صحت کارڈ بنائیں گے تاکہ غریب باآسانی اپنا علاج کرواسکے گا۔

'ڈیم بنائے جائیں گے'

وزیراعظم نے پانی کے مسئلے کو بھی اپنی تقریر کا حصہ بنایا اور کہا کہ پانی پوری وزارت بنارہے ہیں اور کس طرح پانی بچاسکتے ہیں اس پر کام کریں گے اور بھاشا ڈیم ہمیں ہر قیمت بنانا پڑے گا کیونکہ اگر ڈیم نہیں بنا تو ہمیں مستقبل میں بڑے مسائل ہوں گے اس لیے ایک ڈیم بنانا ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ بھاشا ڈیم بنانے کے لیے پیسہ جمع کریں گے کیونکہ ڈیموں کی تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پانی بچانے کے لیے نیا نظام متارف کرائیں گے، ملک میں پانی کا مسئلہ دیرینہ ہے جس کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔

اپنا اگلا اقدام کسانوں کی مدد کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ حکومت کا کام ہے کہ کسان کی مدد کرے تاکہ وہ پیسہ بنا سکیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے زرعی تحقیق جس کے لیے ہمارے پاس فیصل آباد زرعی یونیورسٹی موجود ہے۔

سول سروس میں اصلاحات

انھوں نے سول سروس کو بھی ٹھیک کرنے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ 1960 کی دہائی میں پوری دنیا میں ہماری سول سروس سب سے بہترین تھی لیکن سیاسی مداخلت اور میرٹ کے خاتمے سے اپنی سول سروس کو تباہ کیا اور ڈاکٹر عشرت حسین سے بھی بات کررہے ہیں کہ کیسے ٹھیک کرسکتےہیں۔

انھوں نے سول سرونٹ کو پیغام دیا کہ ہم سیاسی مداخلت نہیں کریں گے بس آپ اپنی ذمہ داریاں بھرپور ادا کریں ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن میں آپ سے چاہتا ہوں کہ جب عام آدمی سول سروس میں آئے تو اس کو عزت دینا ہے کیونکہ جو ان کا حق ہے وہ اس کو ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ادارہ عوام کا کام وقت پر کریں گے تو ان کی تنخواہیں بڑھائیں گے اور مراعات بھی دیں گے لیکن اگر غلط کام ہوا تو سزا بھی ہوگی اور یوں جزا و سزا کا نظام ہوگا۔

'بلدیاتی نظام کو ٹھیک کریں گے'

وزیراعظم نے کہا کہ بلدیاتی نظام کو بھی ٹھیک کریں گے اور ناظم کا انتخاب براہ راست ہوگا اور ان کو طاقت ور بنائیں گے کیونکہ ساری دنیا میں جہاں بلدیاتی نظام بہتر ہے وہاں ترقی ہے۔

انھوں نے نوجوانوں کے حوالے سے کہا کہ روزگار دیں گے، اسکل سکھائیں گے اور قرض دیں گے اور کھیلوں کے گراؤنڈ بنائیں گے جبکہ کھیلوں کے میدانوں پر قبضے کرکے اس کو ختم کردیا گیا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ نوجوانوں کو بلاسود قرضے فراہم کریں گے۔

سبز پاکستان مہم

عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں درخت لگانے کی ایک بڑی مہم شروع کریں گے اور پاکستان میں اربوں درخت لگانے ہیں، شہروں میں درخت لگانے اور پاکستان کو بڑے پیمانے پر ہرا کرنا ہے اور نوجوانوں کے ساتھ مہم چلائیں گے۔

پاکستان میں آلودگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے امین اسلم کو موسمیات کے حوالے سے وزیر لگایا ہے ابھی نومبر میں لاہور میں آلودگی سے دھند ہوگی اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور صفائی پر کام کرکے پاکستان کو صاف ستھرا ملک بنائیں گے۔

سیاحت

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دیں گے اور ہر سال 4 سال نئی تفریحی گاہیں کھول دیں گے کیونکہ پاکستان دنیا کے خوب صورت ترین ممالک میں سے ایک ہے اور اسی خوب صورتی کے لیے گوادر سمیت دیگر ساحلوں کو بھی سیاحتی مقام بنائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ فاٹا اور کے پی کو ضم کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ اس وقت بھی فاٹا میں حالات ٹھیک نہیں ہیں اس لیے فی الفور معاملات ٹھیک کریں گے اور دوسرا کام بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پورا زور لگائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ بلوچستان پیچھے رہ گیاہے، ناراض لوگوں کوساتھ ملنے کی کوشش کریں گے۔

'جنوبی پنجاب صوبہ بننا چاہیے'

جنوبی پنجاب کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ صوبہ بننا چاہیے اس کے لیے ہم کام کریں گے کیونکہ اتنے بڑے پنجاب میں ایک جگہ سے کام نہیں ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم نے کراچی کے حوالے سے کہا کہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کراچی کے ٹرانسپورٹ کو ٹھیک کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر تمام جماعتیں یکجا ہیں اس لیے اس پر بھرپور عمل کریں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ہم ہمسایوں سے بہترین تعلقات بنائیں گے جس کے لیے میری رہنماؤں سے بات ہوئی ہے۔

'اقتدار میں رہتے ہوئے کاروبار نہیں کروں گا'

انھوں نے کہا جب تک اقتدار میں ہوں اس وقت تک میں کوئی کاروبار نہیں کروں گا اور میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے لیکن جو اپنے پیسے باہر لے کر گیا ان کو نہیں چھوڑوں گا جس کے لیے آپ میرا ساتھ دیں اور سوشل میڈیا کے اس دور میں آپ ہم پر نظر رکھیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک گھنٹہ 9 منٹ طویل خطاب کے آخر میں کہا کہ میں عوام کو سادہ ترین زندگی گزار کر دکھاؤں گا، میں عوام کوایک، ایک پیسہ بچا کر دکھاؤں گا اور جب تک حکومت میں ہوں کوئی کاروبار نہیں کروں گا۔

عمران خان نے کہا کہ ایک دن آئے گا کہ پاکستان میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔

مزید پڑھیں: برطانوی وزیراعظم کا عمران خان کو فون، جیت پر مبارکباد

خیال رہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے اکثریت حاصل کر لی تھی جس کے بعد وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تھی اور دیگر جماعتوں کی مدد سے مرکز میں حکومت بنالی۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ملک کے معاشی بحران کے پیشِ نظر عوام نے اس مرتبہ عمران خان کو آزمانے کا فیصلہ کیا تھا جنہوں نے اپنے منشور میں بھی پاکستان کی معیشت کو بہتری کی جانب لانے کی بات کی تھی۔

تاہم اب امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی زیادہ تر توجہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے پر ہی مرکوز ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے پر جشن

بنی گالا میں اہم اجلاس

قبل ازیں نومنتخب وزیرِ اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب سے قبل بنی گالا میں اہم اجلاس طلب کیا۔

اجلاس میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسد عمر، فواد چوہدری ودیگر رہنما شریک تھے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کے مندرجات پر غور کیا گیا، اس کے علاوہ اجلاس میں صدارتی انتخابات، کابینہ کی تشکیل سے متعلق امور پر بھی بات چیت کی گئی۔

تبصرے (3) بند ہیں

ڈاکٹر فہیم ا نجم Aug 19, 2018 04:19pm
ملک کی ترقی اور کامیابی کا راز قانون کی حکمرانی پر ہے پا کستان میں قانون غریب کے لیے اور ہے اور امیر کے لیے اور جس میں طاقت ہے وہ کسی قانون کی پرواہ نھیں کرتا پاکستان کے شھر فیصل آباد میں ریگل روڈ جھنگ بازار میں گزشتہ روز جن دوکان داروں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہوا تھا کارپوریشن والے سڑک پر موجود تمام سامان ٹرکوں میں ڈال کر لے گے اُن کے جانے کے ادھ گھنٹے کے بعد جن لوگوں میں طاقت تھی وہ اپنا سامان واپس لے آے کیا پاکستان میں قانون سب کے لیے ایک نہیں ھو سکتا
Asif Saleem Aug 20, 2018 11:32am
قوم ابھی تک سکتے میں ہے۔ ہم تو وزیراعظم کی ایسی تقریروں کے عادی تھے جن میں یا تو بھٹو، بی بی شہید کی خدمات کا ذکر ہوا کرتا تھا، یا پھر موٹر وے کے نام پر چند ایک سڑکیں، یا میٹرو کا اعلان کرکے فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یہ تو پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک وزیراعظم قوم کو بتا رہا ہے کہ میرے پاس اتنی بلٹ پروف گاڑیاں اور اتنے ملازمین ہیں جو قوم پر بوجھ ہیں، میں تمام گاڑیوں کی نیلامی کروں گا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ وزیراعظم نے بتایا کہ قوم کے سوا 2 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، ان کیلئے کچھ کرنا ہوگا۔ پہلی مرتبہ ہوا کہ ہمیں پتہ چلا کہ اس قوم کے 45 فیصد بچے غذائی قلت کی وجہ سے دماغی اور جسمانی نشوونما کی کمی کا شکار ہیں، انہیں غذا فراہم کرنا ہوگی۔ پہلی مرتبہ مغرب کو پتہ چلا کہ جس فلاحی ریاست کا نظام ان کے پاس ہے وہ ہمارے نبی اور خلفائے راشدین کا قائم کردہ ہے۔ بیواؤں، بچوں، خواتین، نوجوانوں کے مسائل سے لے کر ٹورازم، تعلیم، صحت، کرپشن جیسے مسائل کا اس طرح سے ادراک آج تک نہ کیا جاسکا۔ قوم ابھی تک سکتے میں ہے اور سوچ رہی کہ یا رب ، کیا واقعی تُو نے ہماری سن لی اور اس ملک پر اپنی رحمت کا سایہ دوبارہ کردیا!
KHAN Aug 20, 2018 07:04pm
@ڈاکٹر فہیم ا نجم یقیناً ملک کی ترقی اور کامیابی کا راز قانون کی حکمرانی پر ہے، عمران خان کی تقریر کا اثر قانون پرعملدرآمد سے ہوگا، ہمارے ملک میں تمام قوانین موجود ہیں، چاہیے وہ بچوں کو تعلیم کی فراہمی ہو یا منی لانڈرنگ کی ممانعت، صوبوں کو حقوق دینے ہو یا عوام کو صحت کی فراہمی، غیر قانونی پروٹوکول لینے پر پابندی یا عوام کے پیسے (ٹیکس) کی حفاظت، اسی طرح عوام کے مسائل حل کرنا ہو یا درخت کاٹنے سے روکے جانے کا قانون۔اسی طرح خریدار کو رسید فراہم کرنے کا قانون بھی موجود ہے، ہر قانون موجود ہے ان قوانین کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بلدیات کے بھی تمام قوانین موجود ہے مثلاً کچرا یا ملبہ وغیرہ سڑکوں یا گلیوں میں پھینکنا، گھر سے پانی سڑکوں پر بہانا، بغیر اجازت چھوٹے بڑے پلاٹوں پر تعمیرات، دکانداروں کا سامان رکھ کر سڑک پر قبضہ کرنا، پتھارے یا ریڑھی والوں سے بھتہ لے کر ان کو دکان کے آگے جگہ فراہم کرنے پر پابندی مگر خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی، ایسے افسر اور سرکاری ملازمین ہی نہیں بچے جو بلاخوف قانون پر عمل درآمد کراسکے۔ ایک بات طے ہے کہ لوگوں کی چیخیں نکلنے والی ہے۔