ہر سال عید الاضحیٰ پر لوگ اپنے بینک اکاؤنٹس سے اربوں روپے کیش کی صورت میں نکالتے ہیں۔

بڑے مقامی بینک کے مطابق کیش کی صورت میں نکلوائی جانے والی رقوم کی اپنی حدود ہیں،’ اگر آپ عیدالاضحیٰ سے ایک مہینہ قبل نکلوائی گئی رقوم کا جائزہ لیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جانوروں کی خریداری اور اس سے متعلق امور میں کتنے پیسے نکلوائے گئے۔

جمع کی گئی رقم نکلوانے سے متعلق ڈیٹا ایک وقفے کے بعد سامنے آتا ہے جس کے لیے عید کے بعد کچھ ہفتے انتظار کرنا پڑتا ہے،ڈیٹا موصول ہونے کے بعد عید کے موقع پر نکلوائی گئی رقم کا تخمینہ معلوم کرنا بھی بنیادی مسئلہ ہے۔

عید الاضحیٰ کے موقع پر کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے باعث بڑی تعداد میں بینک میں اور بینک سے باہر اے ٹی ایم کے ذریعے رقم نکلوائی جاتی ہے۔

جس کی وجہ سے اس بات کا سراغ نہیں ملتا کہ عید الاضحیٰ سے پہلے کتنی رقم نکلوائی گئی اور اس کا کتنا حصہ کب سسٹم میں واپس پہنچے گا اور اس نکلوائی گئی رقم کو مکمل ہونے میں کتنا عرصہ لگے گا۔

مزید پڑھیں : عید پر معیشت میں بہتری کی امید

بینک ماہرین اور مالکان کا کہنا ہے کہ لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمس) اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) جیسے ادارے عید پر ہونے والی خرید و فروخت اور اس سلسلے میں نکلوائی جانے والی رقم کے لیے ایک تحقیقی پروجیکٹ کا آغاز کرسکتے ہیں۔

اپنے مشاہدات کی بنیاد پر بینکرز کا کہنا ہے کہ ڈپازٹ شدہ رقم کو نکلوانے کا سلسلہ عیدالاضحیٰ سے 6 ہفتے قبل شروع ہوجاتا ہے، ان 6 ہفتوں کے دوران تمام ڈپازٹ شدہ رقم میں کمی کارجحان دیکھنے میں آتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی رقم کی واپس منتقلی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔

نیشنل بینک آف پاکستان کے سینئر ایگزیکٹو کا کہنا ہے ’جمع شدہ رقم کو کئی وجوہات کی بنیاد پر نکلوایا جاسکتا ہے، جس میں کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے کنٹریکٹرز اور ملازمین کو اسلامی فریضے سے قبل رقم فراہم کرنا بھی شامل ہے۔‘

سال 2017 میں عیدالاضحیٰ سے 6 ہفتے قبل بینک ڈپازٹ میں کمی آنا شروع ہوگئی تھی، ان 6 ہفتوں میں ہر ہفتے میں اربوں روپے نکلوائے جاتے تھے۔

’ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان اربوں روپے میں سے کتنی رقم خاص طور پر قربانی کے جانوروں کی خریداری پر خرچ ہوئی، نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس رقم کا کتنا حصہ بینکوں میں دوبارہ جمع ہوا اور کتنا بینکنک سسٹم میں گردش کرتا رہا۔‘

یہ بھی پڑھیں : افغانستان سے مویشیوں کی درآمد بند،مقامی منڈیوں میں قربانی کے جانور مہنگے

کیا ہم نے اس سال عیدالاضحی سے 6 یا 7 ہفتے قبل بینک میں جمع شدہ رقوم میں کمی دیکھی ہے؟ مقامی بینک کے عہدیدار نے بتایا کہ ’سرکاری ڈیٹا کے مطابق 6 جولائی سے 10 اگست کے درمیان بینک ڈپازٹ میں 3 سو 16 ارب روپے کی کمی آئی، آئندہ 2 ہفتوں میں 24 اگست تک ڈپازٹ میں مزید کمی آئے گی لیکن کتنی اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔‘

عیدالفطر اور عید الاضحٰی سے قبل بینک سے کیش نکلوانے کے علاوہ ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ بھی رقم آن لائن منتقل کی جاتی ہے۔

اس کی چند وجوہات ہیں جیسا کہ ان کیش ٹرانزیکشن کو ٹیکس جمع کرنے والوں سے چھپانا آسان ہے، دوسرا یہ کہ ای پے منٹ اور ای کیش کے تمام طریقہ کار علیحدہ سے پیسے چارج کرتے ہیں۔

تیسرا یہ کہ ہماری غیررسمی معیشت بہت بڑی ہے اور ان پر کام کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ ٹرانزیکشن کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہوں گی۔

چوتھا یہ کہ غیررسمی معیشت ہماری قومی معیشت سے نصف ہے جو کہ طاقتور گروپس کی حمایت کرتا ہے۔

بینک عہدیداران کا کہنا ہے کہ ایک غور طلب بات یہ ہے کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ سے قبل نکلوائے جانے والی رقوم میں تھوڑا فرق ہوتا ہے، عید الفطر سے قبل پیسے ایک خصوصی طریقہ کار کے تحت نکلوائے جاتے ہیں۔

حبیب بینک کے سینئر ایگزیکٹو نے کہا کہ ’جانوروں کی خرید وفروخت کے لیے نکلوائی جانے والی رقم یا تو بینک سسٹم میں واپس نہیں آتی اورا گر آئے بھی تو ایک وقفے بعد آتی ہے ۔

یہ بات انتہائی اہم ہے کہ عید قرباں پر جانوروں کی تجارت کو محفوظ کیا جائے۔


یہ خبر 20 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Aug 20, 2018 08:14pm
اس کے لیے یہ ہوسکتا ہے کہ سرکاری مویشی منڈیوں میں ادائیگی چیک کے ذریعے ہو اور چیک کے ذریعے ادائیگی کرنے والوں کے لیے مال پیڑی فیس معاف ہو۔ چیک کے ذریعے ادائیگی سے عوام اور حکومت کے لیے بے شمار فوائد ہے ۔