نومنتخب وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان میں عید الاضحٰی کے دوران مارکیٹ میں تبدیلی رونما ہوئی اور گزشتہ برس کے مقابلے میں اس میں وسعت نظر آرہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمود کا شکار ہونے والی ’عید الاضحٰی معیشت‘ گزشتہ برس اس دہائی کی سب سے کم سطح پر تھی کیونکہ لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی قربانی کے جانوروں کی طلب میں کمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں بیوپاری اپنے جانوروں کو واپس اپنے گھر لے گئے تھے۔

مویشی منڈیوں کے ڈیلرز نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال بکروں اور بھیڑوں کی طلب میں واضح کمی واقع ہوئی ہے تاہم گائے، بیل اور بھینسوں کی طلب میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

رواں برس ٹرانسپورٹ کے اخراجات سمیت دیگر اخراجات کی وجہ سے مویشیوں کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، تاہم گاہک کی بارگین کی صلاحیت کے ساتھ اس میں 10 فیصد تک کمی بھی ہورہی ہے۔

مزید پڑھیں: معاشی صورتحال ابتر ہے، فوری 12 ارب ڈالر درکارہوں گے، اسد عمر

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر جتنی بڑی تعداد میں مویشیوں کی تجارت ہوگی، تو اتنی ہی زیادہ دولت شہری علاقوں سے دیہی علاقوں میں منتقل ہوگی۔

اس کے علاوہ جن افراد کو مویشیوں کی خریدوفروخت سے فائد ہوتا ہے ان میں شہری تاجر اور سروس فراہم کرنے والے اور مینوفیکچررز شامل ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں گائے اور بکروں کی آبادی کا تقریباً 10 فیصد حصہ عیدالاضحٰی کے تین دنوں میں اللہ کی راہ میں قربان کیا جاتا ہے۔

پاکستان اکانومک سروے کی رپورٹ کے مطابق مویشی شعبہ زراعت کی ترقی کا 58.9 فیصد ہے جبکہ ملکی مجموعی پیداوار کا 11.1 فیصد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے مویشیوں کی درآمد بند،مقامی منڈیوں میں قربانی کے جانور مہنگے

ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پُر امن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کا اثر بھی مارکیٹ پر پڑا ہے، اور لوگوں میں اس حوالے سے کسی طرح کا خوف موجود نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی استحکام اور بہتر ہوتی سیکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر قوم مالی ضرب کو نظر انداز کرکے سکون محسوس کر رہی ہے۔

عید کے موقع پر ہونے والا یہ کاروبار زیادہ تر کیش پر ہی انحصار کرتا ہے، تاہم ایسی صورت میں نگراں اداروں کی جانب سے رقوم کی ترسیل کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

یہ ایک مکمل چین کی طرح کام کرتا ہے جو پورے سال پر محیط ہوتا ہے اور عیدالاضحٰی کے موقع پر اس میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔

اس پوری چین میں سرمایہ کار، مویشی فارم کے مالکان، قلیل مدتی ریٹیل سرمایہ کار، براکرز، ٹرانسپورٹرز، مویشی منڈی اور اربن سینٹرز کے منتظمین، سروس فراہم کرنے والے اور متعدد عارضی ملازمین شامل ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Aug 20, 2018 05:51pm
Aik achiee tehreer...