دنیا کو پر امن بنانے کیلئے ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنا ناگزیر

اپ ڈیٹ 29 اگست 2018
ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کا دن 2010 سے منایا جا رہا ہے—فوٹو: ماڈرن بلاگ
ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کا دن 2010 سے منایا جا رہا ہے—فوٹو: ماڈرن بلاگ

البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں اپنے دفاع کے لیے بڑھتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کے رجحان نے ہماری سوچ سمیت ہر چیز کو تبدیل کر دیا ہے اور ساتھ ہی ہمیں ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جس کی دوسری جانب صرف ہلاکت ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ حد سے بڑھ کر طاقت کا تصور صرف ایسے لوگوں کو متاثر کرتا ہے جن میں اخلاقی جرات کی کمی ہوتی ہے، میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی امریکی صدر روز ویلٹ کو لکھا گیا وہ خط تھا جس میں اس امر کی نشاندہی کی گئی تھی کہ جرمن سائنسدان بہت جلد ایٹم بم بنا لیں گے، اس لیے امریکی حکام کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آئن اسٹائن نے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہم بہت آگے جا چکے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی بدولت جن عالمگیر مسائل نے جنم لیا ہے، ان کا حل صرف اور صرف ہمارے صلح رحمی میں پوشیدہ ہے، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ مستقبل میں اس قدر تباہی و بربادی کا سبب بنیں گے تو سائنسدان بننے کے بجائے میں گھڑی ساز بننے کو ترجیح دیتا۔

انیسویں صدی کے وسط میں امریکا سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوئے اور وقتا فوقتا ان ممالک کی جانب سے اپنے تیار کردہ ایٹمی ہتھیاروں کو جانچنے کے لیے تجربات بھی کیے جاتے رہے، جن میں سے زیادہ تر خفیہ طور پر نامعلوم مقامات پر کیے گئے جبکہ کئی ممالک نے باقاعدہ اعلان کے ساتھ اپنے ایٹم بم اور دیگر نیو کلیئر ہتھیاروں کے تجربات کیے جس کا مقصد اپنے حریف ممالک کو دبانا اور علاقے میں اپنا تسلط قائم کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت

تاریخ میں پہلا ایٹمی دھماکہ 16 جولائی 1945 کو امریکا نے جس مقام پر کیا اسے 'ٹرانیٹی سائٹ 'کہا جاتا ہے، اس تجربے میں جو ایٹم بم استعمال کیا گیا وہ 20 ٹن ٹی این ٹی کی طاقت کا تھا، واضح رہے کہ ٹی این ٹی طبیعات میں کسی ایٹمی دھماکے کی شدت کو ظاہر کرنے کی اکائی ہے۔

پہلی بار 6 اگست 1945 کو جاپانی شہر ہیروشیما پر امریکا نے ایٹم بم گرایا—فوٹو: ہسٹری ڈاٹ نیٹ
پہلی بار 6 اگست 1945 کو جاپانی شہر ہیروشیما پر امریکا نے ایٹم بم گرایا—فوٹو: ہسٹری ڈاٹ نیٹ

جنگ عظیم دوئم کے دوران امریکا نے اپنے حریف جاپان کو شکست دینے کے لیے پہلی دفعہ ایٹم بم کا استعمال کرتے ہوئے 6 اگست 1945 کو اسے جاپان کے گنجان آبادی والے شہر ہیروشیما اور محض 3 دن بعد یعنی 9 اگست کو دوسرے شہر ناگا ساکی پر گرایا، ان حملوں اور تابکاری کے شدید ترین اثرات کی وجہ سے اگلے 3 سے چار ماہ میں ہیرو شیما میں 90 ہزار سے لے کر 1 لاکھ 46 ہزار افراد کی ہلاکتیں ہوئیں جب کہ ناگاساکی پر صورتحال نسبتا کم کشیدہ رہی اور یہاں 39 سے 80 ہزار شہریوں کی ہلاکت ریکارڈ کی گئی، ان حملوں میں لاکھوں افراد تابکاری کے اثرات سے جنم لینے والے کینسر اور دیگر مہلک جلدی امراض اور قحط کا شکار ہو کر ایڑیاں رگڑ کر مرتے رہے۔

ان حملوں کے بعد 15 اگست کو جاپان کو مخالفین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا اور یوں 2 شہروں کے اجڑنے اور لاکھوں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کے بعد 2 ستمبر 1945 کو یہ خونی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی ۔

ان 2 جاپانی شہروں پر ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرکے طاقت کے نشے میں دھت امریکی حکومت اور فوجی سربراہان کے عزائم کچھ اور بڑھ چکے تھے، لہذا یکم نومبر 1952 کو امریکا میں واقع مارشل آئی لینڈ میں پہلی انجینئرڈ تھرمو نیوکلیئر ڈیوائس 'آئی وی مائک' کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔

اس کے بعد اس دور کی دوسری سپر پاور سوویت یونین نے ایٹم بم کی تیاری کے عمل کو مزید تیز تر کردیا اور 30 اکتوبر 1961 کو کیے جانے والے سوویت یونین کے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے کو تاریخ کے طاقتور ترین ایٹمی دھماکے کی حیثیت حاصل ہے جس کی شدت 50 سے 58 میگا ٹن تھی۔

دوسری بار 9 اگست 1945 کو امریکا نے ہی جاپانی شہر ناگاساکی پر بم گرایا—فوٹو: ہسٹری ڈاٹ نیٹ
دوسری بار 9 اگست 1945 کو امریکا نے ہی جاپانی شہر ناگاساکی پر بم گرایا—فوٹو: ہسٹری ڈاٹ نیٹ

اس شدت کے دھماکے کا اصل مقصد یقینا اپنے سیاسی حریف امریکا پر فوجی و دفاعی برتری ثابت کرنا تھا، لہذا اس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے اور کسی تیسری جنگ عظیم کے خطرے کو ٹالنے کے لیے 1963 میں ایٹمی طاقت رکھنے والے 4 میں سے 3 ممالک برطانیہ،امریکا اور سوویت یونین نے بڑھتے ہوئے ایٹمی تجربات کو روکنے اور نیوکلیئر پاور کے پرامن استعمال کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے، جسے ایل ٹی بی ٹی کا نام دیا گیا،اس پر کئی ایسے ممالک نے بھی دستخط کیے جن کے پاس ایٹمی طاقت نہیں تھی مگر وہ اس کے حصول کے لیے کوشاں ضرور تھے۔

مزید پڑھیں: جوہری ہتھیاروں کی نئی امریکی حکمت عملی بہت بڑا خطرہ

اس معاہدے کے تحت ان ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ کھلی فضاء یا سمندر کی گہرائی میں ایٹمی دھماکوں سے حتی الامکان گریز کریں گے، لیکن آبادی سے دور مقامات پر زیر زمین تجربات کی مشروط آزادی دی گئی تھی۔

اس کے باوجود فرانس نے 1974 تک اور چین نے 1980 تک کھلی فضاء میں اپنے تیار کردہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات جاری رکھے، کیوں کہ یہ ممالک ایل ٹی بی ٹی میں شامل نہیں تھے، جبکہ اس معاہدے کے پابند ممالک اس کے بعد زیر زمین تجربات کرتے رہے۔

امریکا نے اپنا آخری زیر زمین ایٹمی تجربہ 1992 میں برطانیہ نے 1991 میں کیا، جب کہ چین اور فرانس نے 1996 تک اس سلسلے کو جاری رکھا۔

لیکن بڑھتے ہوئے عالمگیر مسائل اور کشیدگی کو محسوس کرتے ہوئے کافی عرصے سے ایک ایسے معاہدے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جس کے تحت ایٹمی طاقت رکھنے والے تمام ممالک کو پابند کیا جائے کہ وہ بنا شدید ضرورت زیر زمین تجربات سے بھی پر ہیز کریں۔

لہذا 1996 میں ایٹمی طاقت رکھنے والے 8 ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے، اسے 'سی ٹی بی ٹی' کا نام دیا گیا، اس کے باوجود اس معاہدے میں شامل کئی ممالک خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کرتے رہے، جبکہ امریکا پر الزام ہے کہ اس نے افغانستان، عراق اور شام میں بڑے پیمانے پر نیوکلیئر اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے علاوہ یہاں ماحولیاتی و جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

واضح رہے کہ عراق اور شام پر امریکی چڑھائی کے لیے دنیا کے سامنے یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ ان ممالک کے پاس مہلک ایٹمی و کیمیائی ہتھیار موجود ہیں اور ان کے حکمران عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں، اگرچہ امریکا اس امر سے ہمیشہ انکاری رہا ہے مگر اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ امریکا نے افغانستان میں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر سرکردہ لیڈروں کی ہلاکت کے لیے طورہ بورہ کے پہاڑی سلسلے پر کلسٹربم اور مہلک کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا، جس کا ایک خفیہ مقصد اپنے تیار کردہ ایٹمی و کیمیائی ہتھیاروں کا تجربہ بھی تھا۔

فی الوقت سی ٹی بی ٹی میں شامل 8 ممالک کے علاوہ بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا بھی ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک میں شامل ہیں مگر یہ ابھی تک اس معا ہدے پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں، بھارت نے جب 1998 میں پھوکران میں اپنے ایٹم بم کا کا میاب تجربہ کیا تو فورا خطے میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی، کیونکہ پاکستان اور بھارت آزادی کے 71 سال بعد بھی روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں جن کے درمیان مسئلہ کشمیر اور کئی دیگر تنازعات عشروں سے حل طلب چلے آ رہے ہیں۔

لہذا پاکستانی حکومت نے خطے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے شدید عالمی رد عمل اور پابندیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مئی 1998 میں بلوچستان کے علاقے چاغی کے پہاڑی سلسلوں میں ایٹم بم کے کامیاب تجربات کیے، جب کہ اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا بالترتیب 2006، 2009، 2013، 2016، اور 2017 میں ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کرتا رہا ہے جس کے باعث اسے شدید عالمی ردعمل اور پابندیوں کا سامنا رہا ہے مگر شمالی کوریا کی حکومت اور فوج کسی صورت جھکنے کو تیار نہیں، تاہم ان کے تجربات کو مبہم بھی سمجھا جاتا ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا نے تجربات نہیں کیے، مگر ہتھیار کسی حد تیار کرلیے ہیں۔

دوسری جانب ایران سمیت کئی دیگر اسلامی ممالک اپنے دفاع کے لیے ان ہتھیاروں کی تیاری یا دیگر ذرائع سے ان کے حصول کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، جنگ و جدل اور ایٹمی و کیمیائی ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی سامنے آنے کے باوجود ایسے ترقی پزیر ممالک بھی ان ہتھیاروں کی تیاری میں مشغول ہیں جن کی معیشتیں اربوں ڈالر کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں اور وہاں عوام کو پوری طرح ضروریات زندگی بھی میسر نہیں۔

پاکستان، بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک کی حکومتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملکی دفاع عوام کی ضروریات اور مسائل سے بڑھ کرہرگز نہیں ہے، رپورٹس کے مطابق 16 جولائی 1945 کو کیے گئے امریکا کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد سے اب تک تقریبا ََ 2000 کے قریب ایسے تجربات کیے جا چکے ہیں جن میں سے آخری تجربہ ستمبر 2017 میں شمالی کوریا نے کیا تھا حالانکہ اب نہ صرف کھلی فضاء بلکہ زیر زمین تجربات کے مہلک نتائج بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔

پاکستان کے پاس بھی ایٹم بم سمیت دیگر ایٹمی ہتھیار ہیں—فائل فوٹو: دی نیشنل انٹریسٹ
پاکستان کے پاس بھی ایٹم بم سمیت دیگر ایٹمی ہتھیار ہیں—فائل فوٹو: دی نیشنل انٹریسٹ

فی الوقت دنیا کے ہر خطے کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی بدولت شدید خطرات لاحق ہیں اور قدرتی آفات کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جس میں اہم کردار ایٹمی و کیمیائی ہتھیاروں کے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور تجربات نے بھی ادا کیا ہے، جبکہ مستقبل میں ان سے بھی زیادہ مہلک ہتھیاروں کی تیاری کے امکان کو کسی صورت مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

ایٹمی و نیوکلیئر ہتھیاروں کی بدولت جنم لینے والی اس اندوہناک صورتحال کو دیکھ کر 2009 میں اقوام متحدہ کے 64 ویں اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 29 اگست کو ہر برس ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے خلاف اس دن کو عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا، جس کا مقصد دنیا بھر میں عام افراد،ایٹمی طاقت کے حامل ممالک اور اس کے حصول کے لیے سرگرداں کئی اور ممالک کی حکومتوں اور ذمہ دار افراد میں ان کی ہلاکت خیزی کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے اقوام متحدہ اجلاس سے ایٹمی ممالک ہی غیر حاضر

اقوام متحدہ کے اسی اجلاس میں وسطی ایشیائی ملک قازقستان کی جانب سے پیش کردہ ایک قرار داد بھی منظور کی گئی جس کے مطابق ہمیں اپنی سلامتی کے لیے ان ہتھیاروں کی نہیں بلکہ ایک ایسی دنیا کی ضرورت ہے جو ان سے مکمل طور پر پاک ہو، ورنہ ہر تیسرا ملک ان کے حصول کے لیے جس طرح سرگرداں ہے جو پوری طرح ان ہتھیاروں کی حفاظت کی اہلیت بھی نہیں رکھتا تو کچھ بعید نہیں کہ کسی بھی وقت کوئی ایسا ہولناک واقعہ رونما ہو جس کے سامنے ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹمی حملے کچھ حیثیت نہیں رکھتے، کیوں کہ لگ بھگ 73 سال میں دنیا ٹیکنالوجی اور سائنس کی انتہاؤں پر پہنچ چکی ہے، لا محالہ کسی بھی جانب سے کیا جانے والا ان ہتھیاروں کا غیر ذمہ دارانہ یا جنونی استعمال کسی تیسری جنگ عظیم کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

اس قرار داد کے ذریعے اقوام متحدہ،اجلاس میں شریک تمام ممالک،حکومتی اداروں،این جی اوز،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، یہاں تک کے تعلیمی اداروں کو بھی پابند کیا گیا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ایک مکمل محفوظ مستقبل کے حصول کے لیے بھرپور کردار ادا کریں اور دنیا بھر کی حکومتوں اور فوجی سربراہان سمیت سرکردہ افراد میں یہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کریں کہ یہ ہتھیار دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے ضامن ہر گز نہیں ہیں بلکہ یہ دنیا کے ہر خطے میں ایک عدم تحفظ کا احساس بڑھانے کا سبب بنے ہیں، کیونکہ جب کسی مخصوص خطے میں ایک یا 2 ممالک ایٹمی طاقت کے حامل ہوں تو طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے اور کسی بھی وقت ہمسایہ ممالک کے ساتھ کوئی چھوٹی سی کشیدگی بھی کسی ہولناک المیے کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے۔

2010 سے دنیا بھر میں 29 اگست کو ’ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کا دن‘ کے طور پر منایا جا رہا ہے اس روز کانفرنسز، ورک شاپس، لیکچرز، تصاویر اور لکھنے کے ایسے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جس کے ذریعے ان کی ہلاکت خیزی کو واضح کیا جاسکے، تاکہ دنیا بھر میں ان پر مکمل پابندی عائد کی جاسکے، 29 اگست 2018 کو بھی اس حوالے سے عالمی تقریبات منعقد ہوئیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیٹرر نے رواں برس 24 مئی کو اپنے جس نئے ایجنڈے کا اعلان کیا تھا اس میں 'ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مستقبل' کا ایجنڈا سر فہرست تھا، سیکریٹری جنرل کے مطابق سی ٹی بی ٹی ایک ایسا مؤثر معاہدہ ہے جس نے ایٹمی تجربات کو محدود کرنے اور ان کی روک تھام میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، لہذا وقت کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اس معاہدے پر دستخط کر کے اپنی ایٹمی سرگرمیاں بند ڈالیں، انہوں نے مزید کہا تھا کہ ممالک کو اپنے ہتھیاروں کی بھرپور حفاظت کا انتظام کرنے کے علاوہ جس حد تک ممکن ہو انہیں محفوظ طریقے سے تلف کرنے کی کوشش کریں، تاکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Syed Shahid Ali Aug 29, 2018 01:03pm
Problem is that if in world some countries try to play the role of Police man then these weapon cannot be banned. The south Korea obtained these weapon to stop America steps, Pakistan got it to India with boundaries i think the world is still in barbarian state the recent wars imposed by America on Iraq Afghanistan Libya are example of this so the weak one try to get the power for his survival. Still in world the rule survival for the fittest is present.