لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو نیب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کے خلاف دائر اپیل پر درخواست گزار اور وفاقی حکومت کے وکلا نے دلائل مکمل کرلیے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں جسٹس عاطر محمود اور جسٹس شاہد جمیل خان پر مشتمل 3 رکنی فل بنچ نے اے کے ڈوگر سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل عمران عزیز نے فل بنچ کے روبرو پیش ہوئے اور دلائل دیے۔

وفاقی حکومت اور درخواست گزار کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جبکہ نیب پراسیکیوٹر جہانزیب خان بھروانہ بھی فل بنچ کے روبرو پیش ہوئے تاہم انھیں کل دلائل دینے کی ہدایت کی گئی۔

عدالت نے سماعت کے دوران درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ جب تک آپکی تسلی نہیں ہو گی آپ کو سنیں گے۔

انھوں نے اپنے دلائل کے دوران کہا کہ 12 اکتوبر 1999 کو ملک میں مارشل لا لگایا گیا اور آج کل نیب نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف،مریم نواز،کیپٹن صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر نیا بینچ تشکیل

ان کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس بننے کے 120 دن کے بعد ہی غیر موثر ہو گیا تھا اور نیب کا قانون آٹھارویں ترمیم کے بعد ختم ہو چکا ہے۔

درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کو اس قانون کے تحت سزا دی گئی جو ختم ہو چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن(ر) صفدر کو مردہ قانون کے تحت سزا دی گئی اس لیے یہ سزا غیر قانونی ہے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نواز شریف اور دیگر کو نیب کے مردہ قانون کے تحت دی گئی سزا کالعدم قرار دے۔

وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ قانون کے مطابق نیب آرڈیننس کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔

وفاقی حکومت کے وکیل کے دلائل مکمل ہوتے ہی لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے سماعت کل تک ملتوی کردی اور نیب پراسیکیوٹر کو اپنے دلائل کل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں:ایون فیلڈ ریفرنس سزا کےخلاف درخواست کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا

یاد رہے کہ 6 جولائی کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال قید، مریم نواز کو مجموعی طور پر 8 سال قید اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سزاؤں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں بھی اپیل دائر کی گئی تھی جس کی سماعت کے لیے جسٹس شمس محمود مرزا، جسٹس ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس مجاہد مستقیم احمد پر مشتمل فل بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

تاہم فل بینچ کے سربراہ جسٹس شمس محمود مرزا نے سماعت سے معذرت کر لی تھی جس کے باعث بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

بعد ازاں جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں جسٹس عاطر محمود اور جسٹس شاہد جمیل خان پر مشتمل 3 رکنی فل بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں